انڈیا بلاک کو ساتھ آنے کا سبب ہمیشہ یاد رکھنا ہوگا!... کمار کیتکر

انڈیا بلاک کے سامنے اب ایک بڑا چیلنج ہے، اس کی بھلائی اسی میں ہے کہ اس میں شامل پارٹیاں ہمیشہ یاد رکھیں کہ آخر وہ ایک پلیٹ فارم پر جمع کیوں ہوئیں۔

<div class="paragraphs"><p>انڈیا بلاک کے سرکردہ لیڈران، تصویر ویپن</p></div>

انڈیا بلاک کے سرکردہ لیڈران، تصویر ویپن

user

کمار کیتکر

جب ہم ’اپوزیشن‘ کہتے ہیں تو اس سے ہمارا مطلب کیا ہوتا ہے، اسے بغیر کسی شبہ کے سمجھنا ضروری ہے۔ اس کے ماتحت آنے والوں میں کیا یکسانیت ہوتی ہے؟ ’اپوزیشن‘ کو متعارف کرنے والی پارٹیوں کے درمیان عام اتفاق کہاں ہے؟

’اپوزیشن‘ لفظ کا بہت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے اور گزشتہ کچھ سالوں کے دوران تو اس کا غلط استعمال ہی کیا گیا ہے۔ یہ اتنا غیر واضح ہے کہ یہ نہ تو اصل مطلب ظاہر کرتا ہے اور نہ ہی طرز۔ اکثر نام نہاد اپوزیشن پارٹی اچانک برسراقتدار پارٹی بن جاتی ہیں، انتخاب کے ذریعہ نہیں بلکہ لیڈران کے پارٹی بدلنے کے ذریعہ، اور یہ اب عام بات ہو گئی ہے۔ کچھ دانشوروں نے پارٹی بدلنے کو ’جمہوری متبادل‘ کہہ کر دفاع بھی کیا ہے۔


کچھ سال قبل نتیش کمار اپوزیشن کے اسٹار تھے۔ وہ اپوزیشن بلاک کے کنوینر بننا چاہتے تھے۔ وہ بایاں محاذ کی طرف جھکاؤ والے این جی اور لبرل دانشوروں کے چہیتے تھے۔ میں نے 2017 میں چمپارن ستیاگرہ کی صدی منانے کے لیے پٹنہ میں نتیش کمار کے ذریعہ منعقد ایک تقریب میں حصہ لیا تھا۔ اس میں کئی صحافی، شاعر، مورخ، ماہر تعلیم اور تحریک آزادی کی ہستیاں شامل ہوئی تھیں۔ نتیش نے بہت خوبصورت انداز میں بات کی اور نریندر مودی حکومت کے فاشزم سے لڑنے کے لیے ’آج کا ستیاگرہ‘ کے لیے تیار رہنے کی اپیل کی۔ پرشوتم اگروال اور شمس الاسلام جیسے دانشوروں نے ان کی باتوں کو دہرایا۔ مشہور صحافی ہری ونش، جو اب راجیہ سبھا کے ڈپٹی چیئرمین ہیں، نے بھی نتیش کی بات کی حمایت کی۔

قارئین کو یاد ہوگا کہ مورخ اور سیاسی تبصرہ نگار رام چندر گوہا نے اپوزیشن کے وزیر اعظم عہدہ کے چہرے کی شکل میں نتیش کمار کی امیدواری کی پرزور وکالت کی تھی۔ گاندھی فیملی کے سخت ناقد گوہا نے دلیل دی تھی کہ ہندوستان میں سیاست کو نئی سمت دینے کے لیے ’اقرباپروری کی زنجیر‘ کو توڑنا ہوگا۔ انھوں نے کہا تھا کہ نتیش اس کے لیے ’صحیح شخص‘ ہیں۔ بعد میں انھوں نے اعتراف کیا کہ یہ ایک غلطی تھی اور گوہا کے تئیں غیر جانبداری ظاہر کرتے ہوئے میں کہنا چاہوں گا کہ تب نتیش نے ’پلٹو بابو‘ کی شکل میں اپنی پہچان نہیں بنائی تھی۔


ہندوتوا کے جوشیلے پیروکار رام جیٹھ ملانی ایک وقت بی جے پی کے نائب صدر ہوتے تھے اور واجپئی کے دور میں وہ وزیر بھی رہ چکے تھے۔ انھوں نے 94 سال کی عمر میں قبول کیا کہ وزیر اعظم عہدہ کے لیے نریندر مودی کا نام آگے بڑھا کر انھوں نے بہت بڑی غلطی کی تھی۔ جیٹھ ملانی نے بڑی شرمندگی کے ساتھ یاد کیا کہ انھوں نے مودی کو اعلیٰ عہدہ کے لیے سب سے اہل امیدوار کی شکل میں دیکھا تھا! انھوں نے سوچا کہ جب ’دوسری طرف‘ جانے کا وقت آئے گا تو چترگپت (جو ہندو اساطیری افسانوں کے مطابق دنیا میں ہمارے کیے گئے کاموں کی تفصیل رکھتے ہیں) ان کے گناہ کا حساب کس خانے میں رکھیں گے۔ بعد کے دنوں میں وہ جس طرح مودی کی برائی کرتے رہے، یہ سبھی نے دیکھا۔ آپ اس ماہر قانون کو کہاں رکھیں گے؟ برسراقتدار خیمہ کے ساتھ یا اپوزیشن کے ساتھ؟

یہاں تک کہ ایک وقف سیکولر سماجوادی جئے پرکاش نارائن نے بھی 1974 میں ’اپوزیشن‘ پارٹیوں سے گزارش کی تھی کہ وہ اندرا گاندھی کی ’تاناشاہی‘ والی حکومت کو چیلنج دینے کے لیے آر ایس ایس اور جَن سنگھ کو ساتھ لیں۔ جئے پرکاش سے بھی پہلے رام منوہر لوہیا اور ان کے سماجوادی مریدوں نے ایک کثیر پارٹی کانگریس مخالف محاذ شروع کیا تھا جس میں جَن سنگھ بھی شامل تھا۔ لوہیا کنبہ بکھر گیا۔ ملائم سنگھ یادو سے لے کر لالو پرساد، نتیش کمار سے لے کر جارج فرنانڈیز، شرد یادو سے لے کر دیوگوڑا، کرپوری ٹھاکر سے لے کر ایس ایم جوشی، مدھو لمے سے لے کر راج نارائن تک... ’کانگریس مخالف‘ نام کی اس عجیب، دشمن والی روشن نے کئی رخ دیکھے ہیں۔


کئی این جی او آج بھی لوہیا کے سیاسی فلسفہ کے تئیں وفادار ہیں۔ کچھ خود کو برسراقتدار طبقہ کے ساتھ جوڑتے ہیں، اور کچھ اپوزیشن کے ساتھ، اور کبھی کبھی وہ اپنا رخ بدل لیتے ہیں جیسے کہ میوزیکل چیئر کھیل رہے ہوں۔

آج انڈیا بلاک کی بیشتر پارٹیاں ماضی میں بی جے پی کے ساتھ اتحاد کر چکی ہیں یا اس کی قیادت والی حکومتوں میں شامل رہی ہیں۔ ممتا کی ترنمول کانگریس سے لے کر کروناندھی کی ڈی ایم کے تک، شیوسینا سے لے کر سماجوادی پارٹی، نیشنل کانفرنس سے لے کر پی ڈی پی اور جنتا دل تک۔


طویل مدت تک کانگریس میں رہے اور سابق وزیر اعظم وی پی سنگھ نے ایک بار کہا تھا کہ وہ لوہیا اور جے پی کے مرید ہیں، جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ سَنگھ پریوار سے حمایت لینے کے خلاف نہیں تھے۔ تھوڑے وقت کے لیے رہی ان کی حکومت کو بی جے پی اور بایاں محاذ پارٹیوں نے حمایت دی تھی۔ بایاں محاذ پارٹیوں نے کبھی بھی سیدھے طور پر بی جے پی کی حمایت نہیں کی، لیکن 1980 کی دہائی کے آخر میں اور بعد میں ہند-امریکہ نیوکلیائی معاہدہ کے ایشو پر پارلیمنٹ میں اور باہر ’فلور مینجمنٹ‘ کے نام پر وہ بھی ایک ہی طرف رہے۔

اپوزیشن لفظ کا استعمال بیشتر کانگریس مخالف محاذ کے لیے کیا جاتا ہے اور اس کے اپنے اسباب ہیں۔ 1971 کے مہاگٹھ بندھن میں جَن سنگھ، سنیوکت سماجوادی پارٹی، پرجا سماجوادی پارٹی، سوتنتر پارٹی اور اندرا مخالف کانگریس (او) شامل تھیں۔ جَن سنگھ/بی جے پی یا کمیونسٹوں کو چھوڑ کر ان میں سے بیشتر پارٹیاں کانگریس کی ہی شاخیں یا اس سے الگ ہوئے گروپ تھے۔ سوتنتر پارٹی کے بانی راج گوپالاچاری مہاتما گاندھی کی قیادت میں کانگریس کے ایک اہم لیڈر رہے تھے۔ لوہیا اور جے پی نہرو کے سخت حامی تھے۔ فارورڈ بلاک کا قیام کرنے والے سبھاش چندربوس ہوں یا آچاریہ کرپلانی، چندرشیکھر، چرن سنگھ اور این سی پی کے بانی شرد پوار، یہ سبھی پہلے کانگریس میں تھے۔ ترنمول کانگریس بھی کانگریس سے ہی نکلی۔ تو پھر بھلا اپوزیشن کیا ہے؟


یقین کریں، موجودہ اپوزیشن، یعنی ’انڈیا بلاک‘ کو توڑنے کا منصوبہ پہلے سے ہی چل رہا ہے۔ کچھ خود ساختہ چانکیہ عوامی طور سے کہنے لگے ہیں کہ سال کے آخر تک لوک سبھا میں بی جے پی کی تعداد 280 کو پار کر جائے گی اور تب وہ چندربابو نائیڈو کی ٹی ڈی پی یا نتیش کمار کی جے ڈی یو پر منحصر نہیں رہیں گے۔ اس پالیسی کی بنیاد وہی پرانی ’کانگریس مخالفت‘ ہے، حالانکہ اس میں کچھ مایوس کن تبدیلیاں ہیں، اور وہ اپنی اقتدار سے متعلق لالچ و موقع پرستی کو صحیح ٹھہرانے کے لیے اپنے پسندیدہ ’پنچنگ بیگ‘ نہرو-گاندھی فیملی کو نشانہ بناتی ہے۔

یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اپنے وجود کو صحیح ٹھہرانے کے لیے کانگریس مخالفت کا سہارا لینے والی کسی بھی تنظیم کا وجود نہیں بچا۔ جنتا پارٹی بکھر گئی، وی پی سنگھ کا تجربہ ناکام ہو گیا۔ چندرشیکھر کی حکومت نہیں چلی، نہ ہی دیوگوڑا کی، اور نہ ہی آئی کے گجرال کی۔ لوہیا-جے پی اصول سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والی پارٹی بی جے پی رہی ہے۔ بہتر ہو کہ اگلی بار جب بھی کسی اپوزیشن پارٹی پر بی جے پی، خصوصاً مودی-شاہ بریگیڈ سے جڑنے کے لیے ڈورے ڈالے جائیں تو انھیں یاد رہے کہ بی جے پی ماضی میں کس طرح اپنے ساتھیوں کو ’چبا‘ جاتی رہی ہے۔


آج اپوزیشن کے لیے چیلنج یہ ہے کہ ان کے پاس یکساں سیاسی ہدف تو ہے، لیکن وہ ایک نظریاتی پلیٹ فارم شیئر نہیں کرتے۔ ان کے پاس کوئی کامن منیمم پروگرام نہیں ہے۔ انڈیا بلاک ایسا اتحاد ہے جس میں یہ عام خصوصیات نہیں ہیں۔

دوسری طرف انڈیا بلاک کے اس کردار کے حق میں کچھ چیزیں ہو سکتی ہیں۔ شریک پارٹیوں نے اپنی اپنی شناخت، علامت اور ان لیڈروں کو بنائے رکھا ہے جن کا تکبر جئے پرکاش کی جنتا پارٹی جیسے اتحاد کے راستے میں آ سکتا ہے۔ ان سبھی عام خصوصیات کے باوجود جنتا پارٹی بکھر گئی اور کئی جنتا دل اور کچھ سماجوادی پارٹیاں بنیں۔ ان مٰن سے کچھ اب مودی کے ساتھ ہیں، کچھ انڈیا بلاک کے ساتھ۔


انڈیا بلاک میں شامل ہونے والے لوگ اس خوف سے متحد ہیں کہ مودی-شاہ کی بی جے پی پہلے انھیں نگلنا شروع کرے گی، اور پھر انھیں ختم کر دے گی۔ انھوں نے دیکھا ہے کہ کس طرح اے آئی ڈی ایم کے، شیوسینا، اکالی دل اور این سی پی جیسی پارٹیوں پر حملہ کیا گیا، انھیں توڑا گیا یا بلیک میل کیا گیا۔ ان پارٹیوں کے لیے یہ ان کے وجود کا سوال ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ ان میں سے کسی بھی پارٹی نے اس سے پہلے فاشزم کا سامنا نہیں کیا ہے۔

ہندوستانی تاریخ میں اس خطرے کی کوئی مثال نہیں ہے۔ اس سے پہلے کبھی بھی نام نہاد خود مختار اداروں کا اس طرح سیاسی پارٹیوں اور ان کے لیڈروں، مطمئن نہ رہنے والوں اور ناقدین کو دہشت زدہ کرنے و بلیک میل کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا گیا تھا۔


یہ ’خوف‘ ایسا گوند ہے جو آنے والے دنوں میں انڈیا بلاک کو باندھ سکتا ہے۔ وہ شاید آج کی بی جے پی کی تاناشاہی، کھلے عام اکثریت پسندی کے خلاف کھڑے ہو کر متحد رہ سکیں۔ آنے والے 12-6 ماہ میں پتہ چل جائے گا کہ انھوں نے ضروری سبق سیکھے بھی ہیں یا نہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔