’جنسی ہراسانی کے معاملے میں ہمیشہ مرد ہی قصوروار نہیں ہوتے‘، الہ آباد ہائی کورٹ کا اہم تبصرہ

عدالت نے کہا کہ اس بات پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا کہ کوئی عورت اپنے شوہر کو طلاق دیے بغیر دوسری شادی کے لیے کسی مرد کو پانچ سالوں تک جسمانی تعلق کی اجازت دیتی رہے۔

<div class="paragraphs"><p>الٰہ آباد ہائی کورٹ، تصویر آئی اے این ایس</p></div>

الٰہ آباد ہائی کورٹ، تصویر آئی اے این ایس

user

قومی آوازبیورو

الہ آباد ہائی کورٹ نے جنسی استحصال کے ایک معاملے میں اہم فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ جنسی ہراسانی سے متعلق قوانین خواتین کو پیشِ نظر رکھ کر بنائے گئے ہیں۔ اس کا مقصد خواتین اور لڑکیوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہر معاملے میں مرد ہی قصوروار ہوتے ہیں۔ ایسے معاملات میں ثبوت پیش کرنا مرد اور عورت دونوں کی ذمہ داری ہے۔

ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ایسا کوئی فارمولہ نہیں ہے جس کے ذریعے یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ عورت کے ساتھ جسمانی تعلقات شادی کے جھوٹے وعدے پر قائم ہوئے یا دونوں کی رضامندی سے۔ انفرادی معاملات میں حقائق کے تجزیے سے ہی یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ عورت سے جسمانی تعلق قائم کرنے والا مرد قصوروار ہے یا نہیں۔ اس تبصرے کے ساتھ ہی ہائی کورٹ نے جنسی استحصال اور ایس سی/ ایس ٹی ایکٹ کے ملزم نوجوانوں کو بری کرنے کے سیشن کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے شکایت کنندہ خاتون کی اپیل کو مسترد کر دیا۔


یہ معاملہ پریاگ راج (الہ آباد) کے کرنل گنج علاقے کا ہے۔ یہاں رہنے والی ایک لڑکی کی 2010 میں شادی ہوئی تھی۔ شادی کے دو سال بعد وہ اپنے شوہر سے علاحدہ ہو کر اور طلاق لیے بغیر اپنے والدین کے گھر جا کر رہنے لگی۔ 2019 میں اس نے پولیس میں شکایت درج کرائی کہ ایک نوجوان شادی کے بہانے اس کے ساتھ گزشتہ پانچ سالوں سے جسمانی تعلقات بنا رہا ہے۔ اس شکایت پر ملزم نوجوان کے خلاف عصمت دری اور ایس سی/ ایس ٹی ایکٹ سمیت کئی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ اس سال فروری میں الہ آباد کے سیشن کورٹ نے اس ملزم نوجوان کو عصمت دری اور دیگر سنگین دفعات سے بری کر دیا تھا۔

سیشن کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف خاتون نے الہ آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی۔ اپیل پر فیصلہ سناتے ہوئے جسٹس راہل چترویدی اور جسٹس نند پربھا شکلا کی ڈویژن بنچ نے سیشن کورٹ کے فیصلے کو درست مانتے ہوئے ملزم نوجوانوں کو بری کرنے کے فیصلے کو اپنی منظوری دے دی۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ خاتون پہلے سے شادی شدہ تھی۔ اسے جسمانی تعلقات کے بارے میں اچھی طرح معلومات تھیں۔ شوہر سے طلاق لیے بغیر دوسری شادی کے وعدے پر راضی ہونا بالکل مناسب نہ تھا۔ صرف شادی کے وعدے پر پانچ سال تک جسمانی تعلقات رکھنا عملی طور پر ممکن نہیں۔


عدالت نے کہا کہ اس بات پراعتماد نہیں کیا جا سکتا کہ کوئی عورت اپنے شوہر کو طلاق دیے بغیر دوسری شادی کے لیے کسی مرد کو پانچ سالوں تک جسمانی تعلق کی اجازت دیتی رہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ مرد اور عورت دونوں بالغ تھے اور جسمانی تعلقات کے نتائج کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔ ایسے میں صرف مرد کو ہی مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔