یوگی حکومت کے خلاف اپنوں کی بڑھتی ناراضگی، ریزرویشن سے لے کر کانوڑ یاترا تک پر اٹھا رہے ہیں سوال

وزیر اعلیٰ یوگی کی کارکردگی پر سوالیہ نشان خود ان کے ہی لوگ لگا رہے ہیں، بی جے پی رکن اسمبلی فتح بہادر سنگھ نے تو اپنی جان کا خطرہ بتاتے ہوئے سی بی آئی جانچ کا مطالبہ کر دیا ہے۔

یوگی آدتیہ ناتھ / تصویر ویڈیو گریب
یوگی آدتیہ ناتھ / تصویر ویڈیو گریب
user

قومی آوازبیورو

لوک سبھا انتخابات میں انڈیا بلاک نے اترپردیش میں بی جے پی کو شکست کیا دی، ریاست کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے خلاف ناراضگی اور شکایت کا ایک طوفان سا کھڑا ہو گیا ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں کو تو چھوڑیں، وزیر اعلیٰ کے خود کے ساتھی اور بی جے پی کی اتحادی پارٹیاں ان کے لیے آزار بننے لگی ہیں اور ان پر سوالات اٹھانے لگی ہیں۔ اس ضمن میں سب سے اہم معاملہ وزیر اعلیٰ کے علاقے کے دو ارکان اسمبلی کا ہے، جنہوں نے اپنی جان کے خطرے کی دُہائی دیتے ہوئے تحفظ کا مطالبہ کیا ہے۔ جب کہ اتحادی پارٹیوں کے لیڈران او بی سی اور ریزرویشن کے معاملے پر یوگی حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کر رہے ہیں۔

اس سے قبل یعنی کہ 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں اترپردیش سے بی جے پی کو 80 میں سے 62 سیٹیں ملی تھیں، جو 2024 میں کم ہوکر 33 رہ گئیں۔ بی جے پی کی یہ ہزیمت انڈیا الائنس نے کی جس نے 44 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ اس طرح لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کو سب سے بڑا زخم اتر پردیش سے لگا ہے۔ اس کی وجہ سے لکھنؤ سے دہلی تک مسلسل محاسبہ، میٹنگ، غور و فکر نیز چنتن منتھن جاری ہےمگر کوئی نتیجہ برآمد ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے۔


وزیر اعلیٰ یوگی کی کارکردگی پر سوالیہ نشان خود ان کی ہی پارٹی کے ان کے ہی علاقے کے لوگ بھی لگا رہے ہیں۔ گورکھپور سے متصل کمپیر گنج سے بی جے پی کے ایم ایل اے فتح بہادر سنگھ نے اپنی جان کو خطرہ بتاتے ہوئے حکومت سے سیکورٹی کا مطالبہ کیا تھا اور پولیس انتظامیہ پر سنگین الزامات لگائے ہیں۔ یوگی حکومت کی گورکھپور پولیس انتظامیہ کو کٹہرے میں کھڑا کرتے ہوئے انہوں نے الزام لگایا ہے کہ پولیس اس شخص کے ساتھ ملی ہوئی ہے جس نے ان کے قتل کے لیے ایک کروڑ روپے کا چندہ جمع کیا ہے۔ انہوں نے اس معاملے کی جانچ سی بی آئی کو سونپنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایسا ہی کچھ معاملہ بی جے پی کے ایم ایل اے شرون نشاد کا بھی ہے جنہوں نے اپنےجان کے تحفظ کی درخواست کی ہے۔ شرون نشاد، نشاد پارٹی کے صدر سنجے نشاد کے بیٹے اور یوگی حکومت میں کابینہ کے وزیر ہیں۔ انہوں نے یوپی پولیس اور انتظامیہ پر سنگین الزامات لگائے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ میری جان کو خطرہ ہونے کے باوجود پولیس نے ان کی سیکورٹی ہٹا دی ہے۔ انہوں نے اسے پولیس انتظامیہ کی سازش بتایا ہے۔

ان اپنوں کے علاوہ بی جے پی کے اتحادی بھی وزیر اعلیٰ یوگی کے لیے آزار بنے ہوئے ہیں۔اپنا دل (ایس) کی سربراہ اور صحت و خاندانی بہبود کی مرکزی وزیر مملکت انوپریہ پٹیل نے 27 جون کو وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کو ایک خط لکھا تھا۔ اس میں انہوں نے ریاستی حکومت پر بھرتیوں میں ریزرویشن پر عمل نہ کرنے کا الزام لگایا۔ انہوں نے اسے انتخابات میں این ڈی اے کی کارکردگی سے بھی جوڑ دیا۔ اپنے خط میں انہوں نے محفوظ سیٹوں کو غیر محفوظ قرار دینے پر روک لگانے کا مطالبہ کیا تھا۔ انہوں نے او بی سی اور ایس سی-ایس ٹی زمروں میں ریزرویشن کی بنیاد پر بھرتیاں نہ ہونے کا الزام بھی لگایا ہے۔ انوپریہ پٹیل نے کہا ہے کہ مودی حکومت او بی سی کے مسائل حل کرنے میں کامیاب رہی لیکن یوگی حکومت اسے نہیں حل کر پا رہی ہے۔ یہ گویا براہ راست یوگی حکومت پر سوالیہ نشان ہے۔


انوپریا پٹیل ہی نہیں نشاد پارٹی کے لیڈر اور یوپی حکومت کے وزیر سنجے نشاد نے بھی یوگی حکومت کو نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا تھا کہ کچھ افسران اندر سے سائیکل، ہاتھی اور پنجے والے اور اوپر سے کمل والے ہیں، جو موقع ملتے ہی ڈس لیتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ یوگی کی بلڈوزر پالیسی پر بھی سنجے نشاد نے سوال اٹھایا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اگر آپ بلڈوزر کا استعمال کرتے ہیں اور لوگوں کے گھر گراتے ہیں تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ وہ آپ کو ووٹ دیں گے؟ اس کے علاوہ او بی سی ریزرویشن کے معاملے پر بھی انہوں نے یوگی حکومت پر سوال اٹھایا ہے۔

دوسری جانب کیشو پرساد موریہ کی سر میں سر ملاتے ہوئے سہیل دیو بھارتیہ سماج پارٹی کے سربراہ اوم پرکاش راج بھر نے کہا ہے کہ بھلے ہی حکومت پارٹیوں سے بنتی ہے لیکن کوئی بھی پارٹی کارکنوں سے مل کر بنتی ہے۔ اس لیے جب پارٹی نہیں ہوگی تو حکومت بھی نہیں رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ نے جو کہا تھا کہ پارٹی حکومت سے بڑی ہوتی ہے وہ بالکل درست ہے اور یہ وہ اس کی حمایت کرتے ہیں۔

یوگی حکومت نے کانوڑ یاترا کے راستے میں پڑنے والے ڈھابوں، دکانوں اور کھانے پینے کے اسٹالوں پر دکانداروں کے نام لکھنے کا حکم جاری کیا تھا، جس پر نہ صرف اپوزیشن بلکہ بی جے پی کی حلیف آر ایل ڈی نے بھی سوال اٹھائے ہیں۔ آر ایل ڈی کے سربراہ جینت چودھری نے کہا کہ کانوڑ یاتری ذات اور مذہب کی شناخت پر کسی دکان پر نہیں جاتا۔ اس معاملے کو مذہب سے نہ جوڑا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ فیصلہ سوچ سمجھ کر نہیں لیا گیا ہے۔ ابھی بھی وقت ہے حکومت کو اپنا فیصلہ واپس لے لینا چاہئے۔ جینت چودھری نے کہا کہ کہاں کہاں نام لکھواؤ گے؟ کیا اب کرتے پر بھی لکھوانا شروع کر دیں کہ کس سے ہاتھ ملانا ہے اور کس سے گلے لگنا ہے؟ اس طرح سے جینت چودھری نے یوگی حکومت پر نشانہ سادھا اور فیصلے کو واپس لینے کے لیے کہا۔


نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ نے 15 جولائی کو دیوش چترویدی، ایڈیشنل چیف سکریٹری، محکمہ تقرری اور عملہ کو سرکاری محکموں میں کنٹریکٹ اور آؤٹ سورسنگ کے ذریعے کی گئی تقرریوں کے بارے میں ایک خط لکھا تھا۔ انہوں نے قانون ساز کونسل کے سوالات کی بریفنگ کے دوران محکمہ کے عہدیداروں سے آؤٹ سورسنگ اور کنٹریکٹ پر کام کرنے والے کل افسران اور ملازمین کے بارے میں معلومات طلب کیں۔ کیشو پرساد موریہ نے پوچھا تھا کہ کنٹریکٹ پر بھرتی میں ریزرویشن کے اصول کی کس حد تک پاسداری کی گئی۔ اس کے علاوہ انہوں نے 69000 اسسٹنٹ ٹیچر کی بھرتی میں ریزرویشن کی تضاد کے بعد منتخب 6800 ریزرویشن زمرہ کے امیدواروں کو تقرری دینے کے معاملے کا ذکر کیا۔ کیشو پرساد موریہ نے جس محکمہ سے تقرری میں ریزرویشن کی پاسداری کرنے کی تفصیل طلب کی ہے، اس کی ذمہ درای وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے پاس ہے۔

ان حالات و واقعات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے خلاف کس حد ناراضگی پائی جا رہی ہے اور ان کے ساتھی انہیں کس طرح گھیرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔