وسیم بریلوی: شورانگیز خاموشی، سکوت بھرا شور...معین شاداب (آٹھویں قسط)

شعر میں حوالہ بننے کی صلاحیت ہے تو وہ ’کوٹ‘ تو ہوگا۔ حال ہی میں پڑوسی ملک میں جو سیاسی بحران پیش آیا تو وسیم بریلوی کے شعروں کا سہارا لیا جا رہا تھا، جو وہاں کے سیاسی پس منظر کو واضح کر رہے تھے

<div class="paragraphs"><p>وسیم بریلوی / تصویر بشکریہ چنڈی گڑھ ساہتیہ اکیڈمی ڈاٹ بلاگ اسپاٹ ڈاٹ کام</p></div>

وسیم بریلوی / تصویر بشکریہ چنڈی گڑھ ساہتیہ اکیڈمی ڈاٹ بلاگ اسپاٹ ڈاٹ کام

user

معین شاداب

وسیم ؔبریلوی کی شاعری ’کوٹیبلٹی‘ کی دولت سے مالا مال ہے۔ شعر میں حوالہ بننے کی صلاحیت ہے تو وہ ’کوٹ‘ تو ہوگا۔ حال ہی میں پڑوسی ملک میں جو سیاسی بحران پیش آیا تو ان کے شعروں کا سہارا لیا جا رہا تھا، جو وہاں کے سیاسی پس منظر کو واضح کر رہے تھے۔

تم گرانے میں لگے تھے، تم نے سوچا ہی نہیں

میں گرا تو مسئلہ بن کر کھڑا ہو جاؤں گا

مجھ کو چلنے دو اکیلا ہے ابھی میرا سفر

راستہ روکا گیا تو قافلہ ہو جاؤں گا

ساری دنیا کی نظر میں ہے مرا عہدِ وفا

اک ترے کہنے سے کیا میں بے وفا ہو جاؤں گا

سوشل میڈیا پر دوبئی کے مشاعرہ میں پڑھے گئے ان اشعار کا کلپ خوب وائرل ہوا، جو معزول وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر باجوا کی چپقلش اور اس سیاسی جنگ کے عواقب و مضمرات کی عکاسی کر رہا ہے۔ مہاراشٹر میں جب شیو سینا سے وشواس گھات کر کے بی جے پی علیحدہ ہوئی تو شیو سینا کے ترجمان اپنی جماعت کا احساس ظاہر کرنے کے واسطے وسیمؔ بریلوی کا یہ شعر پڑھتے ہیں:

وہ جھوٹ بول رہا تھا بڑے سلیقے سے

میں اعتبار نہ کرتا تو اور کیا کرتا

عوام کی توقع کے خلاف کورٹ کا ایک فیصلہ آتا ہے تو یہ شعر متاثرین کے جذبات کی بھرپور ترجمانی کرتا ہے:

فیصلہ لکھا ہوا رکھا ہے پہلے سے خلاف

آپ کیا خاک عدالت میں گواہی دیں گے

ابھی حال ہی میں چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ نے جسٹس کے وی وشوناتھن کی سپریم کورٹ کے جج کے عہدے پر تقرری کا خیر مقدم کیا تو ان کی خوبی بیان کرتے ہوئے، انھوں نے وسیمؔ بریلوی کا یہ شعر پڑھا:

تم آ گئے ہو تو کچھ چاندنی سی باتیں ہوں

زمیں پہ چاند کہاں روز روز اترتا ہے


وسیمؔ بریلوی کے متعدد اشعار ’ضرب المثلیت‘ کی صلاحیت سے انگیز ہیں۔ جو موقع بموقع پڑھے جاتے ہیں، حوالے میں آتے ہیں، مثال بنائے جاتے ہیں:

اصولوں پر جہاں آنچ آئے ٹکرانا ضروری ہے

جو زندہ ہو تو پھر زندہ نظر آنا ضروری ہے

سب نے ملائے ہاتھ یہاں تیرگی کے ساتھ

کتنا بڑا مذاق ہوا روشنی کے ساتھ

میں قطرہ ہوکے بھی طوفاں سے جنگ لیتا ہوں

مجھے بچانا سمندر کی ذمہ داری ہے

دعاکرو کہ سلامت رہے مری ہمّت

یہ اک چراغ کئی آندھیوں پہ بھاری ہے

ذرا سی خاک ہو اس بات پر نہیں جانا

ہزار آندھیاں آئیں بکھر نہیں جانا

یہ کس کا ہاتھ ہے پھر کاٹ کیوں نہیں دیتے

جو سارے شہر کی شمعیں بجھائے دیتا ہے

چراغ گھرکا ہو محفل کا ہو کہ مندر کا

ہوا کے پاس کوئی مصلحت نہیں ہوتی

جلا کے رکھ لیا ہاتھوں کے ساتھ دامن تک

تمھیں چراغ بجھانا بھی تو نہیں آیا

کتاب ماضی کے اوراق الٹ کے دیکھ ذرا

نہ جانے کون سا صفحہ مڑا ہوا نکلے


اپنے چہرے سے جو ظاہر ہے چھپائیں کیسے

تیری مرضی کے مطابق نظر آئیں کیسے

گھر سجانے کا تصور تو بہت بعد کا ہے

پہلے یہ طے ہو کہ اس گھرکو بچائیں کیسے

ہمیں نے کر دیا اعلان گمرہی ورنہ

ہمارے پیچھے بہت لوگ آنے والے تھے

جو سب پہ بوجھ تھا اک شام جب نہیں لوٹا

اسی پرندے کا شاخوں کو انتظار رہا

چلو ہم ہی پہل کر دیں کہ ہم سے بدگماں کیوں ہو

کوئی رشتہ ذرا سی ضد کی خاطر رائیگاں کیوں ہو

اک ذرا سی انا کے لئے عمر بھر

تم بھی تنہا رہے ہم بھی تنہا رہے

شرطیں لگائی جاتی نہیں دوستی کے ساتھ

کیجے مجھے قبول مری ہر کمی کے ساتھ

میں نے مدت سے کوئی خواب نہیں دیکھا ہے

ہاتھ رکھ دے مری آنکھوں پہ کہ نیند آ جائے

کبھی لفظوں سے غداری نہ کرنا

غزل پڑھنا اداکاری نہ کرنا


ان کے ایسے بہت سے ضرب المثل اشعار ہیں جن سے الفاظ و معانی کے مختلف رنگ پھوٹتے ہیں اور جنھیں سن کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ کوچۂ سخن کی فضا تبدیل ہو ئی ہے۔ وسیمؔ بریلوی کے اشعار زمانے کی اذیتوں میں شریک ہوتے ہیں۔ ان کے شعروں میں شورانگیز خاموشی اور سکوت بھرا شور ہے۔ ان کے خیال انگیز کلام سے جمال آفرینی کبھی جد انہیں ہوتی۔

یہی کیفیت ان کے گیتوں کی ہے۔ جنھیں پڑھ کر ہم گھر آنگن کی تہذیب، مناظر فطرت کی دھوپ، چھاؤں، چاندنی اور ہریالی اور بے نام جذبوں کی زبان سیکھ سکتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔