وسیم بریلوی: غم کے اشکوں سے روشن چراغ...معین شاداب (چھٹویں قسط)

وسیمؔ بریلوی نے خواص سے اس انداز میں گفتگو کی جسے عوام نے بھی سمجھا اور عوام سے جس لہجے میں ہم کلام ہوئے وہ خواص کی طبع نازک پر بھی بار نہ ہوا۔ عمومیت اور مقبولیت کے مابین یہ اعتدال و توازن بے مثال ہے

<div class="paragraphs"><p>وسیم بریلوی / تصویر بشکریہ چنڈی گڑھ ساہتیہ اکیڈمی ڈاٹ بلاگ اسپاٹ ڈاٹ کام</p></div>

وسیم بریلوی / تصویر بشکریہ چنڈی گڑھ ساہتیہ اکیڈمی ڈاٹ بلاگ اسپاٹ ڈاٹ کام

user

معین شاداب

شاعری کے لئے صرف علمی اکتساب پر تکیہ نہیں کیا جا سکتا۔ وسیم ؔ بریلوی نے یہ نکتہ پا لیا تھا، لہٰذا انھوں نے ایک طرف جہاں کتب خانوں میں سر کھپایا وہیں کائنات کا مطالعہ بھی کیا۔ جتنی کتابیں پڑھیں اس سے کہیں بڑھ کر انھوں نے عالمِ ذات اور اس کے اطراف کے موجودات کو اپنی فکر میں سرایت کیا۔ اسی مطالعہ ذات و حیات و کائنات کی آمیزش سے ان کی فکر کا خمیر تیار ہوا۔

وسیم ؔ بریلوی لوگوں کو دیکھنے سے لے کر برتنے تک اور برتنے سے لے کر سمجھنے تک، خود بھی کئی آزمائشوں سے گزرتے رہے۔ اپنے محسوسات، مشاہدات اور تجربات کے سیاق و سباق میں کوئی نتیجہ اخذ کرتے وقت ان کے اندرون میں بھی مختلف سوالات کلبلا رہے تھے۔ شاعری کے دھراتل پر جب انھوں نے ان سوالوں کے جواب لکھنے کے واسطے قلم اٹھایا تو فکر کی جہتیں بدلنے لگیں اور موضوعات کی پرتیں کھلتی چلی گئیں۔

وسیم ؔ بریلوی نے متقدمین، متوسطین، متاخرین، معاصرین سب کا مطالعہ کیا۔ اپنے عصر کے بزرگوں، ہم عمروں، نوجوانوں سب کو سُنا۔ اسلاف و اخلاف سب کو پڑھا، ہر کسی کا احترام و اکرام کیا۔ بچپن سے ہی ان کے دل میں یہ تڑپ تھی کہ کچھ اپنی سی بات ہو، جو کچھ کہا جائے اس پہ اپنی چھاپ ہو۔ یہ اسی شوق فراواں اور دھن کا نتیجہ ہے کہ وسیم بریلوی کی دسترس میں ایک ایسا طلسمی لہجہ ہے، جس میں وہ اپنے مکمل تشخص کے ساتھ موجود ہیں۔ اس انداز اور طرز کی یافت میں ان کی منفرد فکر اور برسوں کی ریاضت لگی ہے۔

وسیم ؔبریلوی کی نظرمیں روایتی لہجوں کی قدر تو تھی لیکن وہ تمنّا کے کسی تیسرے چوتھے قدم کی چاپ سن رہے تھے، شاید اسی لئے ان کے دل میں ناصرؔ کاظمی یا شکیبؔ جلالی جیسے شعرا گھر کر رہے تھے کہ ان کے یہاں کہنے کے لئے اپنی کوئی بات تھی، سو ان کے اشعار میں اثر بھی تھا۔ وسیم ؔ بریلوی نے ہمیشہ تاثیر کو اوّلیت دی۔ ان کا خیال ہے کہ آپ بھلے ہی کوئی بڑا مضمون نظم نہ کر سکیں، کوئی بڑا وژن اس کے اندر نہ ہو لیکن یہ اپیل ضرور ہونی چاہیے کہ بات دل سے نکلے، دل تک پہنچے۔


وسیمؔ بریلوی نے خواص سے اس انداز میں گفتگو کی جسے عوام نے بھی سمجھا اور عوام سے جس لہجے میں ہم کلام ہوئے وہ خواص کی طبع نازک پر بھی بار نہ ہوا۔ عمومیت، شہرت اور مقبولیت کے مابین یہ اعتدال اور توازن بے مثال ہے۔ شہرت اور مقبولیت نقد کی نظر میں سب سے بڑا گناہ ہے۔ قبول عام کی وجہ سے نظیرؔ اکبرآبادی بھی صرف نظر کا شکار ہوئے۔ جبکہ اس قبولیت عام کی بات خدائے سخن میرؔ بھی کر رہے ہیں:

شعر میرے ہیں گو خواص پسند

گفتگو پر مجھے عوام سے ہے

’غم‘ وسیمؔ بریلوی کی شاعری کا مدار ہے۔ بظاہر یہ غم میرؔ کی دردمندی اور فانیؔ کی حزن پرستی سے عبارت ہے لیکن وسیمؔ بریلوی کی کیفیات غم کو سمجھنے کے لئے اقبالؔ کے ’فلسفہئ غم‘ سے بھی گذرنا پڑے گا۔ وسیمؔ بریلوی نے اپنے اولین شعری مجموعے کا نام ’تبسم غم‘ یوں ہی نہیں رکھ دیا ہوگا۔ آنسو ہیں تو تبسم ہے، موت ہے تو حیات ہے، خزاں ہے تو بہار ہے، شام ہے تو صبح ہے، رات ہے تو دن ہے، اندھیرا ہے تو اجالا ہے، یعنی یہ غم ہی دراصل شادمانی کی علامت ہے۔ دکھ کے بغیر خوشی مکمل نہیں ہو سکتی۔ شکست و ریخت سے ہی انسانی و جود کامل ہوتا ہے۔ یہ غم ہی روح انسانی کی جان ہے۔ وسیمؔ بریلوی کے تصور غم کی تفہیم کے لئے اشکوں کا فلسفہ سمجھنا ہوگا۔ اور جب آپ آنسوؤں کو سوچیں گے تو آپ کے ذہن میں کچھ چراغ بھی روشن ہو جائیں گے۔ یہ اشک بھی اسی کی آنکھ سے پھوٹتے ہیں جس کا سینہ درد سے معمور ہوتا ہے۔


’آنسو‘ اور ’چراغ‘ وسیمؔ بریلوی کی شاعری کی ایسی کلیدیں ہیں، جن سے ان کی شاعری کے فکریاتی، لفظیاتی، معنیاتی، تشبیہاتی، استعاراتی اور کنایہ جاتی جہانوں کے پٹ کھولے جا سکتے ہیں، جن کے سماجیاتی، نفسیاتی اور فلسفیاتی نظام کی تفہیم کے لیے دفتر کے دفتر درکار ہیں۔ انھوں نے ’آنسو‘ بنائے تو برگِ نرگس پر شبنم کے قطرے، جھیل میں نہاتے ہوئے چاند کی جھلملاہٹ اور برسات کے موسم میں جگنوؤں کی ٹمٹماہٹ ابھر آئی۔ انھیں اشکوں سے انھوں نے اتھاہ سمندر کی گہرائی کا سکوت بھی لکھا اور ساحل پر مچتا طوفانی لہروں کا شور بھی۔ انھوں نے ’چراغ‘ جلائے تو آنکھوں میں ستارے نکل آئے، ذہن سے روشنی پھوٹنے لگی، بینائی کی وسعت کھل گئی، تکلم کا سلسلہ بن گیا، تبسم پھیل گیا اور ترنم جاگ اٹھا۔

صرف غم، آنسو اور چراغ ہی کیا،معنی کی یہ پرتیں دیگر الفاظ میں بھی کھلتی ہیں۔ وسیمؔ بریلوی نے لفظ ’دل‘ لکھا تو درد، غم، اداسی، سوز و گداز، نرمی، ملائمت، حلاوت اور نزاکت کی تصویریں بن گئیں۔ ’چشم‘ رقم کی تو ذہن سے نین تک اور طبع سے سخن تک جگمگاہٹ کا سلسلہ روشن ہو گیا۔ بین کرتی آنکھیں، منظر سے بچھڑی ہوئی آنکھیں، خوابوں کو سنبھالتی آنکھیں....بصارت کی مختلف شکلیں ان کے سخن چہرے پر روشن ہیں۔ وسیمؔ بریلوی کے یہاں تنہائی کی جو تصویریں ہیں، وہ بھی ان کے انفراد کا سامان ہیں۔ سیاہی و سفیدی میں لپٹی ہوئی اس تنہائی میں عالم سکوت بھی ہے اور بزم آرائی بھی۔ اپنی شاعری میں جب وہ ’انسان‘ کی تصویر بناتے ہیں تو چشمہ فیض جاری ہو جاتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔