وسیم بریلوی: مشاعرے کے اسٹیج کا شکوہ...معین شاداب (چوتھی قسط)

پروفیسر وسیم ؔ بریلوی نے مشاعرے کی حرمت پر آنچ نہیں آنے دی اور نہ شاعر کی توقیر کو کم ہونے دیا۔ جہاں ایسا ہوتے ہوئے دیکھا تو مداخلت کی، کہیں بس نہیں چلا تو خاموشی سے کنارہ کر لیا

<div class="paragraphs"><p>وسیم بریلوی / تصویر بشکریہ چنڈی گڑھ ساہتیہ اکیڈمی ڈاٹ بلاگ اسپاٹ ڈاٹ کام</p></div>

وسیم بریلوی / تصویر بشکریہ چنڈی گڑھ ساہتیہ اکیڈمی ڈاٹ بلاگ اسپاٹ ڈاٹ کام

user

معین شاداب

پروفیسر وسیم ؔ بریلوی نے مشاعرے کی حرمت پر آنچ نہیں آنے دی اور نہ شاعر کی توقیر کو کم ہونے دیا۔ جہاں ایسا ہوتے ہوئے دیکھا تو مداخلت کی، کہیں بس نہیں چلا تو خاموشی سے کنارہ کر لیا۔

وسیمؔ بریلوی نے عملی طور پر ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کی حفاظت کی۔ ڈائس سے لے کر پرسنل لائف تک ملک کو جوڑے رکھنے کے اقدام کرتے رہے۔ افسران سے روابط قائم ہونے کے پیچھے بھی ان کا یہی جذبہ کار فرما تھا۔

وسیمؔ بریلوی گنتی کے ان چند لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے قومی یکجہتی کے حق میں مشاعروں میں کوی سمّیلن اور کوی سمیلنوں میں مشاعرے کو شامل کیا۔ نیرجؔ، بیکلؔ اتساہی، کنورؔ بے چین، بشیر بدرؔ، رماناتھ اوستھی، سوم ٹھاکر، بھارت بھوشن وغیرہ زبانوں اور تہذیبوں کو نزدیک لانے کا کام کر رہے تھے۔ وسیمؔ بریلوی اس قبیلے کے نمایاں فرد تھے۔

اپنے انفرادی انداز گفتگو کی وجہ سے وسیمؔ بریلوی کی نظامت بھی پسند کی جاتی رہی ہے۔ معمول کے ناظموں کے برعکس وہ گھسے پٹے جملوں سے گریز کرتے تھے۔ وہ تخلیقی اور زندہ نظامت کرتے تھے لیکن اس اضافی ذمہ داری سے ان کی شاعری متاثر ہو رہی تھی، چنانچہ انہوں نے نظامت ترک کر دی۔ رات بھر اپنی توانائی نظامت میں خرچ کرنے کے بعد شاعر اس لائق نہیں بچتا کہ وہ بحیثیت شاعر حسب توقع کارکردگی کا مظاہرہ کر سکے۔ دوسرے یہ کہ انہیں اس بات کا احساس تھا کہ ان کے نظامت کرنے سے ان لوگوں کی حق تلفی ہو رہی تھی جو اناؤنسنگ کے لئے ہی مخصوص ہو کر رہ گئے ہیں اور جنہیں صرف شاعری سننے کے لئے مدعو نہیں کیا جا سکتا تھا۔


وسیم ؔ بریلوی خود کو خوش نصیب مانتے ہیں کہ انہیں ایسے ایسے جاں نثار و غم خوار، دلبر و دلدار، خیرخواہ و بہی خواہ اور ادب نواز و سخن پرست احباب ملے کہ رشک آتا ہے۔ ان کے ادبی اور تہذیبی عاشقوں کی طویل فہرست ہے۔ ادبی و علمی احباب میں ایک سے ایک ہیرا انہیں میسر آیا۔

وسیم ؔ بریلوی کی ان حضرات سے مستحکم دوستی اور دیرپا روابط کے پیچھے ایک وجہ یہ رہی کہ یہ مراسم کسی مقصد یا مصلحت کے تحت قائم نہیں ہوئے تھے۔ جو کشش محسوس کرتا، ان کے قریب آتا اور جو ان کے معیار پر کھرا اترتا، وہ اس کے ہو جاتے۔ وسیمؔ ؔ بریلوی بلا کے زود حس ہیں، اتنے سُپر سینسٹو ہیں کہ لوگوں کو پڑھ لیتے ہیں، انہیں چہرہ شناسی آتی ہے، حرکات و سکنات سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ سامنے والے کے دل میں کیا ہے۔ ان کی چھٹی حس بتا دیتی ہے کہ وہ کتنی دیر کا ساتھی ہے، کتنی دور تک ساتھ نبھا سکتا ہے۔ اس کی یہ رفاقت کن وجوہات سے ہے اور وہ کتنے عرصے تک قائم رہ سکتی ہے۔ وسیمؔ بریلوی ہر کسی کے ساتھ بہت دیریا بہت دور تک نہیں چل سکتے۔

وسیم بریلوی تک پہنچنے کی کوشش پر تو کسی کا بس نہیں لیکن خود تک آنے دینے کا اختیار صرف انہی کے پاس ہے، انہی کے شعر ہیں:

جو ہم کو دیکھ کر گذرے ہم ان کو جانے دیتے ہیں

وہی ہم تک پہنچتے ہیں جنہیں ہم آنے دیتے ہیں

کس سے بچنا کس سے ہاتھ ملانا ہے

سب کے پاس اپنا اپنا پیمانہ ہے

وسیم ؔ بریلوی گزشتہ 6 دہائی سے اسٹیج کے اوپر جس شکوہ کے ساتھ موجود ہیں، وہ انہی کا حصہ ہے۔ وسیم ؔ بریلوی کو کبھی کسی طرف سوچنے یا دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ جس شے کی طلب کی یا تڑپ ہوئی وہ خود کھنچی چلی آئی۔ یہ انسان کے بس کی بات نہیں۔ پھر یہ سب کون کر رہا ہے۔

کوئی تو ہے جو ہواؤں کے پر کترتا ہے


مجھے نہیں معلوم کہ 60 برس سے زائد عرصے کی مشاعرے کی پریکٹس کے باوجود انہیں کبھی یہ محسوس ہوا کہ نہیں کہ مشاعرہ ان کی منزل تھی لیکن مجھے کہنے دیجئے کہ مشاعرہ ان کی منزل ہو کہ نہ ہو، مشاعرے کی ایک منزل کا نام وسیم ؔ بریلوی ضرور ہے۔

وسیم ؔ صاحب کی حیات اور کمالات کو شخصیت سازی کے نصاب کی کتاب بنایا جا سکتا ہے۔

میری تصویر کے یہ نقش ذرا غور سے دیکھ

ان میں اک دور کی تاریخ نظر آئے گی

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔