وسیم بریلوی: سخن کے دلکش رنگوں کا عکس...معین شاداب (دوسری قسط)

آج عالم یہ ہے کہ اگر کبھی چاند یا مرّیخ پر بھی مشاعرہ ہوا تو اس کی فہرست اس وقت تک مکمل نہیں ہوگی، جب تک اس میں وسیمؔ بریلوی کا نام شامل نہیں ہوگا

<div class="paragraphs"><p>وسیم بریلوی / تصویر بشکریہ چنڈی گڑھ ساہتیہ اکیڈمی ڈاٹ بلاگ اسپاٹ ڈاٹ کام</p></div>

وسیم بریلوی / تصویر بشکریہ چنڈی گڑھ ساہتیہ اکیڈمی ڈاٹ بلاگ اسپاٹ ڈاٹ کام

user

معین شاداب

وسیمؔ بریلوی کے شعری سفر کی ابتدا ناکامیوں سے ہوئی تھی۔ شروع شروع میں وہ کئی مشاعروں سے اس لئے بنا پڑھے واپس آ گئے تھے کہ وہاں شاعری کے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہو رہا تھا، شاعروں کی درگت بن رہی تھی، ایک خاص قسم کی سوقیانہ شاعری سے حظ اڑایا جا رہا تھا، ایسے میں مسائل حیات اور حقیقت بھرے نئے شعر سامعین کے سر سے گذرنے کا اندیشہ تھا۔ لیکن وہ وقت بھی آیا کہ دیکھتے ہی دیکھتے وسیم ؔ بریلوی اپنے لہجے کی بنیاد اور اپنے موقف کی شرط پر ہر قسم کے مشاعروں کی ضرورت بن گئے۔ چاہے ادبی انجمنوں کے مشاعرے ہوں یا دیگر تنظیموں کے، کالجوں کے مشاعرے ہوں یا یونیورسٹی کے، ریڈیو کے پروگرام ہوں یا ٹیلی ویژن کے، نمائشوں کے مشاعرے ہوں کہ اتسو میلوں کے، اعراس کی محافل ہوں یا خانقاہوں کی نشستیں، نعت و مناقب کی انجمن ہو یا بزم مقاصدہ، نوحے کی مجلس ہو یا مسالمے کی...وہ مشاعرے کی مختلف صورتوں کا رنگ و روپ بن گئے۔ ان کی حیثیت املتاس کے اُس پودے کی سی ہو گئی جو ہر نسخے میں پڑتا ہے۔

وسیمؔ بریلوی کے ساتھ ایک اچھی بات یہ رہی کہ مشاعروں کی ناسازگاری کے باوجود کسی نہ کسی گوشے سے ان کی حوصلہ افزائی ہوتی رہی۔ جس زمانے میں رازؔ الٰہ آبادی، ماہرؔ الحمیدی، دلؔ لکھنؤی جیسے شاعر چھتیں اڑا رہے تھے، وسیم ؔ بریلوی آہستگی و شائستگی سے قبولیت کے مرحلے طے کر رہے تھے۔ تب کچھ اور شعرا بھی نئے تیور اور تازہ لہجوں کے ساتھ آ رہے تھے، جس سے مشاعرہ کروٹ لے رہا تھا۔ شمیمؔ کرہانی، نشورؔ واحدی، آنند نرائن ملّاؔ، غلام ربّانی تاباں ؔ، محشرؔ عنایتی، سحرؔ رام پوری، کرشن بہاری نورؔ، بشیر بدرؔ، ند اؔفاضلی، ایازؔ جھانسوی، خاموش ؔ غازی پوری، والی ؔ آسی، گوہرؔ مرادآبادی، اظہرؔ عنایتی، موج رام پوری، شاعرؔ جمالی، معراجؔ فیض آبادی، ساغرؔ اعظمی جیسے شعرا وارد ہوئے اور اپنے ساتھ ہوا کے تازہ جھونکے لائے تو مشاعرے کی فضا تبدیل ہوتی چلی گئی۔ مشاعرے نے اچانک ایک موڑ کاٹا اور سنجیدہ طبقہ مشاعرہ کی طرف متوجہ ہونا شروع ہوا۔


وسیمؔ بریلوی ملک کے ان تمام باوقار اور مشہورِ زمانہ مشاعروں کے لئے ناگزیر ہو گئے، جن میں شمولیت کے لوگ خواب دیکھا کرتے تھے اور جہاں کلام پیش کرنا استناد کا درجہ رکھتا تھا۔ جن میں ڈی سی ایم (دہلی کلاتھ مل) کی جانب سے ہونے والا ’بزم شنکر و شاد‘ کا مشاعرہ، انبالہ کا ہند پاک مشاعرہ، ’انجمن تعمیر دہلی‘ اردو کا مشاعرہ ’انجمن عروجِ ادب‘ دہلی کا مشاعرہ، لال قلعہ کا جشن جمہوریت کا مشاعرہ، بوٹ ہاؤس کلب نینی تال کا مشاعرہ، پنجاب کی منڈی گووند گڑھ کا مشاعرہ، بمبئی کے نہرو سینٹر کا مشاعرہ قابلِ ذکر ہیں۔ کچھ اور بھی نام لئے جا سکتے ہیں، دیوہ کا جشنِ وارث کا مشاعرہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی طلبا یونین کا مشاعرہ اور مختلف شہروں کی نمائش کے آزمائش بھرے مشاعرے، سب ان کی دسترس میں تھے۔

ملک سے باہر، پاکستان، متحدہ عرب امارات، عرب ممالک، خلیجی ممالک، مشرقِ وسطیٰ کی ریاستیں، امریکہ، کناڈا، برطانیہ، آسٹریلیا وہ ہر جگہ اوّلیت اور ترجیحی بنیاد پر بلائے گئے۔ دنیا بھرمیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ابنائے قدیم کی شاید ہی کوئی ایسی انجمن ہو جس کاکوئی مشاعرہ وسیم ؔبریلوی کی شرکت کے بغیر ہوا ہو۔ پاکستان میں انجمن ’ساکنان شہر قائد‘ کا مشاعرہ ہو یا ’انجمن سادات امروہہ‘ کا، انھوں نے تسلسل سے شرکت کی۔


وہ 1961میں مشاعروں میں آئے تھے، 1966میں انھوں نے ’لال قلعہ‘ پڑھ لیا تھا۔ اس کے بعد سے آج تک انھیں بلا ناغہ برس در برس اس تاریخی مشاعرے میں شرکت کی دعوت ملتی رہی۔ کسی سال اگر ان کی شمولیت نہیں ہوئی تو ان کی کہیں اور کی مصروفیت اس کا سبب رہی۔ یہ ایک ’کیرتی مان‘ ہے۔ یہی حال بزم شنکر و شاد کے مشاعرے کے ساتھ رہا اور اب یہی صورت کامنا ؔپرساد کے مشاعرۂ جشن بہار سمیت کچھ دیگر مشاعروں کی ہے۔ زمانے نے ان کے سخن کے خیرمقدم میں سماعتوں کو سراپا انتظار دیکھا ہے۔

وسیمؔ بریلوی اگر ایک طرف مشاعر بازوں کے طوفان میں اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے تھے، وہیں دوسری طرف وہ ادب کی صحت مند آوازوں کے درمیان بھی مستقل سنائی دے رہے تھے۔ متوازن لہجوں کی پہچان تو وہ تھے ہی۔ ایک جانب وہ انور ؔ مرزا پوری اور دلؔ لکھنوی، شمسیؔ مینائی، رازؔ الٰہ آبادی، ماہرؔالحمیدی، حق ؔ کان پوری وغیرہ کے ساتھ مشاعرے پڑھ رہے تھے تو دوسری جانب وہ فراق ؔ گورکھ پوری، سردار ؔ جعفری، کیفی اعظمی، ندا ؔ فاضلی، بشیر بدرؔ کے ہمراہ تھے۔ جگن ناتھ آزاد، گوپال متّل، رام کرشن مضطر، عزیز وارثی، آزاد گلاٹی، بشرؔنواز، مخمور سعیدی، کمار پاشی، امیر قزلباش، شہریار، عرفان صدیقی، اختر ؔ اور ینوی، جمیل مظہری، قیصر الجعفری، کلیمؔ عاجز، ظفر ؔگورکھ پوری، حسن کمال جیسے خواص کے ساتھ بھی سفر کر رہے تھے۔ ادبِ اسلامی سے وابستہ محفلوں میں وہ حفیظ ؔ میرٹھی جیسے شعرا کے ساتھ ہوتے تھے۔ گویا مختلف قسم کے مشاعروں میں وہ قدرِ مشترک کی طرح شامل تھے۔


وسیمؔ بریلوی تب بھی، جب شاعر چار غزلوں میں ہندستان گھوم لیتا تھا اور اب بھی، جب شعر چار سیکنڈ میں پوری دنیا میں پھیل جاتا ہے، امتیازی شان کے ساتھ مشاعروں میں ہیں۔ یعنی جب غزل برسوں پرانی نہیں پڑتی تھی اس وقت بھی اور اس وقت بھی کہ جب شعر لمحے بھر میں باسی ہو جاتا ہے، وسیم ؔ بریلوی کی غزل تازہ کاری کا جادو جگا رہی ہے۔ آج عالم یہ ہے کہ اگر کبھی چاند یا مرّیخ پر بھی مشاعرہ ہوا تو اس کی فہرست اس وقت تک مکمل نہیں ہوگی، جب تک اس میں وسیمؔ بریلوی کا نام شامل نہیں ہوگا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔