وسیم بریلوی: انفرادیت کا تحمل...معین شاداب (تیسری قسط)

وسیمؔ بریلوی نے جس احساس کے ساتھ شعر لکھا اسی کیفیت میں ڈھل کر سنایا بھی۔ ان کی آواز اور انداز میں بھی جدید رنگ تغزل کی فضا ہوتی ہے۔ گویا خیال، فکر، اظہار، زبان، بیان، قرأت ہر جگہ احساس حاوی رہا

<div class="paragraphs"><p>وسیم بریلوی / تصویر بشکریہ چنڈی گڑھ ساہتیہ اکیڈمی ڈاٹ بلاگ اسپاٹ ڈاٹ کام</p></div>

وسیم بریلوی / تصویر بشکریہ چنڈی گڑھ ساہتیہ اکیڈمی ڈاٹ بلاگ اسپاٹ ڈاٹ کام

user

معین شاداب

وسیم ؔ بریلوی جن تین ’منفردات‘ کے ساتھ مشاعرے کے ایوان میں داخل ہوئے تھے، انھیں نکتہ چینی اور حوصلہ شکنی کے باوجود کبھی خود سے جدا نہیں ہونے دیا۔ یہی چیزیں ان کا اختصاص ثابت ہوئیں اور ا ن کی شناخت حوالہ بن گئیں۔ وسیم ؔ بریلوی غالباً پہلے شخص تھے جو اسی لباس کے ساتھ اسٹیج پر آئے جو وہ عام طور پر پہنتے ہیں۔ یعنی انھوں نے جدید (لیکن مہذب) لباس مشاعرے میں متعارف کرایا۔ اس سے پہلے کرتا پاجامہ اور شیروانی یا پھر صدری، بغل بند اور واسکٹ اسٹیج کے شعرا کا ڈریس کوڈ تھا۔ پروفیسر وسیمؔ بریلوی پورے اعتماد کے ساتھ پینٹ، بوشرٹ، سفاری سوٹ اور کوٹ، بلیزر، جیکٹ جیسے ماڈرن ملبوسات زیب تن کرتے تھے۔ دوسرے انھوں مشاعرے کے مروجہ روایتی لہجے سے ہٹ کر شاعری کو نئے موضوعات سے ہم آہنگ کیا۔ تیسری چیز ان کا مخصوص ترنم جو ایک سکون انگیز ٹھہراؤ سے آراستہ تھا۔ ان کے کئی بزرگ اور ہم عمر شعرا نے انھیں کئی مرتبہ یہ سمجھایا کہ ”آپ کا یہ لباس مشاعروں کا نہیں ہے، اسے تبدیل کیجئے۔“ دوسری بات یہ کہ ”آپ کا کلام بھی سامعین کے مطلب کا نہیں ہے، کلام ایسا ہونا چاہیئے کہ اس کا فوری ردّعمل ہو۔“ تیسرے ان سے یہ کہا گیا کہ ”آپ کا جو پڑھنے کا انداز ہے، اس میں اتنا ٹھہراؤ ہے کہ مجمع اتنی دیر اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔“

وسیم ؔ بریلوی نے یہ تمام نصیحتیں سنیں، ان پر غور بھی کیا، لیکن ان پر عمل کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ ان کا موقف تھا کہ وہ اپنے وجود کے اظہار کے لئے شعر کہہ رہے ہیں، مشاعرہ ان کی منزل نہیں ہے، انھیں مستقل تو اس میں رہنا نہیں ہے۔ وسیمؔ بریلوی اتنا ڈوب کر پڑھتے ہیں کہ لوگ مبہوت ہو جاتے ہیں اور یہ سکون ان کے ترنم کا تقاضہ ہے۔ جیسا کہ میں نے مضمون کے ابتدائی حصے میں لکھا ہے کہ وسیم ؔ بریلوی کا آغازِ کار ناکامیوں سے ہوا تھا۔ لیکن دلچسپ اور حوصلہ افزا بات یہ تھی کہ جن جگہوں پر وہ بظاہر ہلکے پڑ رہے تھے، وہیں پر دوبارہ بھی بلائے جاتے تھے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ مجمع میں چیخ پکار مچانے والے لوگ فیصلہ نہیں کرتے، وہ کوئی اور ہی ہوتے ہیں جنھیں یہ اختیار حاصل ہوتا ہے۔ لوگوں کے ہجوم میں جو دس فیصد لوگ ان کے سننے والے تھے، یقیناََ وہ بااثر حضرات تھے۔ ان باتوں سے انھیں تقویت ملی، انھیں یقین ہو گیا کہ یہ رنگ چھوڑنے کا نہیں ہے، اس کے قدردان ہیں۔ آج یہی لب ولہجہ، یہی اندازِ بیان اور یہی وضع قطع ان کا سب سے بڑا وصف ہے۔


ایک وقت وہ تھا جب زیادہ تر شاعر ترنم میں پڑھتے تھے۔ تحت میں پڑھنے والے مشیرؔ جھنجھانوی سمیت دوچار لوگ تھے یا پھر نظم گو شعرا کی تحت اللفظ میں کلام سنانے کی مجبوری تھی۔ اپنی شناخت برقرار رکھنے کے لئے شعرا اپنے اپنے انداز میں پڑھتے تھے۔ فنا ؔنظامی کا اپنا انداز تھا، نشورؔ واحدی کی اپنی لحن تھی، شمیمؔ کرہانی اپنے ڈھب میں پڑھتے تھے۔ بیکلؔ اتساہی، رازؔ الٰہ آبادی، خاموشؔ غازی پوری سب کی گنگناہٹوں میں کچھ نہ کچھ تفاوت تھا۔ آوازوں کا یہ اختلاف مشاعرے کی رنگارنگی کی اساس تھا۔ رنگا رنگ صداؤں کے اس ہجوم میں آواز کا انفراد، پانی میں رہ کر رنگ جدا رکھنے کے مترادف تھا۔ لیکن وسیم بریلو ی کی خوش لہجگی نے یہ دریا بھی پار لگایا۔

یہاں یہ تذکرہ بے محل نہ ہوگا کہ وسیمؔ بریلوی نے جس احساس کے ساتھ شعر لکھا اسی کیفیت میں ڈھل کر سنایا بھی۔ ان کی آواز اور انداز میں بھی جدید رنگ تغزل کی فضا ہوتی ہے۔ گویا خیال، فکر، اظہار، زبان، بیان، قرأت ہر جگہ احساس حاوی رہا۔

کلام پڑھنے میں وسیمؔ بریلوی کا انہماک و استغراق انھیں انفرادیت کی اس بلندی تک پہنچا دیتا ہے، جہاں تک رسائی آسان نہیں ہے۔اُنھوں نے اپنے لئے جو ترنم خلق کیا ہے وہ بے نظیر ہے، یہ کہیں سے مستعار نہیں معلوم پڑتا۔ آواز کا یہ سوز، یہ درد انھیں کے حصے میں آ کر رہ گیا ہے۔ ایک ایسی روحانیت ان کی آواز میں آ بسی ہے جو کسی فقیر کی صدا یا کسی صوفی کی ندا میں ہی ممکن ہے۔ ترنم کے ماہرین بھی یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ اس آواز کے سوتے کہاں سے پھوٹتے ہیں۔ ایک صاحب کا کہنا ہے کہ کبھی کبھی یہ گمان گذرتا ہے، گویا یہ لے عرب سے آئی ہو۔ جو بھی ہو، یہ وسیم ؔ بریلوی کی اپنی پکار اور اپنی کوک ہے، جو انھیں کے نام سے پہچانی جائے گی۔ اہلِ بیت سے تعلق خاطر اور ان کے غم سے سینہ معمور رکھنے کی سعادت نے ان کی آواز میں وہ سوز بھر دیا ہے کہ ان کے گداز ترنم کی گولائی میں اضافی تاثیر پیدا ہو گئی ہے۔ میں نے بعض اوقات نعت و منقبت پڑھتے وقت ان کی پلکوں پر نمی دیکھی ہے۔ یہ ’چشم تری‘ سرتاج کائنات، آلِ رسول اور اصحاب باصفا کے لئے ان کی ’کشتِ عقیدت‘ کو سر سبز کر دیتی ہے۔ ان کی گنگناہٹ کی چشم بستگی حواس واعصاب کے بھید کھولتی چلی جاتی ہے۔

بہت سے لوگوں نے ان کے ترنم کی روشنی سے اپنی آواز کو وقار بخشنے کی کوشش ضرور کی، لیکن وہ آہنگ پا سکے نہ گہرائی۔ جنھوں نے لہجہ اتارنے یا اڑانے کی جسارت کی تو پکڑے گئے اور منھ کی کھانی پڑی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔