وسیم بریلوی: جو سنتا ہے اسی کی داستاں ہے...معین شاداب (ساتویں قسط)

وسیمؔ بریلوی کی حیات انگیز شاعری ہر خاص و عام کو اپنی صدا لگتی ہے۔ جو معاشرہ کے بااثر دانشور طبقے کے احساس کے بھی اتنی ہی نزدیک ہے، جتنی عام سامعین کے قریب رہی ہے

<div class="paragraphs"><p>وسیم بریلوی / تصویر بشکریہ چنڈی گڑھ ساہتیہ اکیڈمی ڈاٹ بلاگ اسپاٹ ڈاٹ کام</p></div>

وسیم بریلوی / تصویر بشکریہ چنڈی گڑھ ساہتیہ اکیڈمی ڈاٹ بلاگ اسپاٹ ڈاٹ کام

user

معین شاداب

وسیمؔ بریلوی کی حیات انگیز شاعری ہر خاص و عام کو اپنی صدا لگتی ہے۔ جو معاشرہ کے بااثر دانشور طبقے کے احساس کے بھی اتنی ہی نزدیک ہے، جتنی عام سامعین کے قریب رہی ہے۔ دراصل ان کے اشعار ان کے وہ تجربات ہیں، جو ہر شخص کے جذبے سے ہم آہنگ ہو سکتے ہیں، اسی کو کہتے ہیں آپ بیتی کو جگ بیتی بنانا۔

کہیں کوئی مصنوعیت نہیں ہے، جو گذرا ہے وہ لکھا ہے:

حال دکھ دے گا تو ماضی پہ نظر جائے گی

زندگی حادثہ بن بن کے گذر جائے گی

تم کسی راہ سے آواز نہ دینا مجھ کو

زندگی اتنے سہارے پہ ٹھہر جائے گی

تیرے چہرے کی اداسی پہ ہے دنیا کی نظر

میرے حالات پہ اب کس کی نظر جائے گی

تم جو یہ مشورۂ ترکِ وفا دیتے ہو

عمر اک رات نہیں ہے جو گذر جائے گی

ان کی یادوں کا تسلسل جو کہیں ٹوٹ گیا

زندگی تو مری نظروں سے اتر جائے گی


ایسی ہی ایک اور غزل جو ان کے احساس پر بہت طاری رہی، ایک زمانے میں اس نے بڑی قیامت مچا رکھی تھی۔ کوئی مشاعرہ اس غزل کے بغیر تکمیل کو نہیں پہنچتا تھا:

میری آنکھوں کو یہ سب کون بتانے دے گا

خواب جس کے ہیں وہی نیند نہ آنے دے گا

اُس نے یوں باندھ لیا خود کو نئے رشتوں میں

جیسے مجھ پر کوئی الزام نہ آنے دے گا

سب اندھیروں سے کوئی وعدہ کئے بیٹھے ہیں

کون ایسے میں مجھے شمع جلانے دے گا

بھیگتی جھیل، کنول، باغ، مہک سنّاٹا

یہ مرا گاؤں مجھے شہر نہ جانے دے گا

وسیم ؔ بریلوی کے یہاں کیفیت بھری بہت سی غزلیں ہیں، جن میں زمانے کی ناکامیاں، محرومیاں، اداسیاں، بے چینیاں ہیں:

میں ان چراغوں کی عمر وفا کو روتا ہوں

جو ایک شب بھی مرے دل کے ساتھ جل نہ سکے

وسیمؔ بریلوی کا یہ شعر تو ان کے تعارف کا اٹوٹ حوالہ بن گیا ہے، جو ابدیت و آفاقیت کا حامل ہے:

جہاں رہے گا وہیں روشنی لٹائے گا

کسی چراغ کا اپنا مکاں نہیں ہوتا


ایک مرتبہ حکومت ہند کے ایک بڑے افسر انھیں اصرار کر کے اپنے دفتر لے گئے۔ کہنے لگے آپ کے ’پدارپن‘ سے میں دھنیہ ہو جاؤں گا۔ خیر وسیمؔ بریلوی نے ان کا دل رکھا اور ان کے ساتھ ان کے دفتر چلے گئے۔ جیسے ہی کمرے میں داخل ہوئے سامنے پڑی کرسی کے پیچھے دیوار پر ان کا مذکورہ بالا شعر جلی حروف میں آویزاں تھا۔ یہ شعر اس انداز سے لگایا تھا کہ آفس میں داخل ہونے والے شخص کی پہلی نظر اسی پر پڑتی تھی۔

ایک صاحب ہیں اپورو ورما، ان کا یہ معمول ہے کہ ان کے یہاں جب بھی کوئی فیملی فنکشن ہوتا ہے وہ اپنے احباب میں وسیمؔ بریلوی کے شعری مجموعے تقسیم کرتے ہیں۔

لکھنؤ میں، گذشتہ دنوں معروف صنعت کار اجے جین نے وسیمؔ بریلوی کو ’ایکل پاٹھ‘ کے لئے مدعو کیا۔ دراصل اجے جین کے پتاجی وسیم ؔ بریلوی سے بے پناہ عقیدت رکھتے ہیں۔ والد کی خوشی کے لئے انھوں نے یہ خصوصی محفل ترتیب دی تھی۔ اس موقع پر انھوں نے وسیمؔ صاحب کی کتابیں بھی رکھی تھیں۔ حاضرین یہ کتابیں حاصل کر کے وسیمؔ بریلوی سے آٹو گراف لے رہے تھے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔