تحریک آزادی کا گم شدہ باب، شفیق الرحمن قدوائی... یوم آزادی کے موقع پر خصوصی پیش کش
شفق الرحمن نے سودیشی مہم اور عدم تعاون تحریک 1920 سے عوام الناس کو جوڑنے کے لیے دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ ملک کے مختلف شہروں کا دورہ کیا۔ جس کی پاداش میں محروس کر کے ویلور جیل میں ڈال دیے گئے
برطانوی نو آبادیاتی نظام کا طوق اتار پھینکنے کے لیے 1757 تا 1947 مادر ہند کے جگر گوشوں کی خون آشام جدوجہد کی داستان تاریخ ہند کا روشن باب ہے، جس میں بلا تفریق مذہب و ملت خاص و عام نے قدم بہ قدم ملا کر ساتھ دیا۔ اس جدوجہد میں موضع بڑا گاؤں ضلع بارہ بنکی کا قدوائی خاندان بھی شامل تھا، جس نے زمیندارانہ شان و شوکت اور عیش و عشرت کی شاہانہ زندگی کو چھوڑ کر تحریک آزادی کی پرخار راہوں کا انتخاب کیا۔ اس تحریک میں قدوائی خاندان کے شفیق الرحمن قدوائی، ان کے سگے چچا فضل الرحمن قدوائی اور رشتہ کے چچا جمیل الرحمن قدوائی شامل تھے۔
شفیق الرحمن قدوائی، بیدار مغز، اولو العزی، سادہ طرز زندگی، خوش مزاج، غریب پرور، آزاد طبعیت اور معتدل المزاج کے مجسمہ تھے۔ علاوہ ازیں نماز روزہ اور اسلامی شعائر کے بھی سخت پابند تھے۔ جنہوں نے تحریک آزادی میں جیسی تن دہی اور مستعدی کا مظاہرہ کیا ویسی ہی دلچسپی اور گرم جوشی کا اظہار تعلیم بالغان کے تئیں کیا۔
شفیق نے 3 دسمبر 1901 کو حسن الرحمن قدوائی کے آنگن میں آنکھیں کھولیں اور دستور کے مطابق عربی اور فارسی کی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی۔ پھر بارہ بنکی کے گورنمٹ ہائی اسکول سے میٹرک کرنے کے بعد ایم اے او کالج (علی گڑھ) میں داخلہ لیا، جو ان دنوں تعلیم کے ساتھ ساتھ سیاست کا اکھاڑا بھی بنا ہوا تھا اور جہاں مولانا محمد علی جوہر، سیف الدین کچلو اور حسرت موہانی وغیرہ کی انقلابی سرگرمیوں کے چہار سو چرچے تھے۔
انہوں نے انقلابی فرزندان علی گڑھ کے ساتھ 12 اکتوبر 1920 کو جدوجہد آزادی میں عملی قدم رکھا۔ گاندھی جی کی ایما پر بدیسی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کر کے سودیشی مہم کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا اور تحریک آزادی میں سرگرم حصہ لینے لگے۔ کالج کی پالیسی کے خلاف طلبا کو برانگیختہ کرنے کی بنا پر انہیں کالج سے نکال دیا۔ اس کی اطلاع جیسے ہی ان کے گھر پہنچی تو والد محترم نے آسمان سر پر اٹھا لیا لیکن اہل خانہ کی ناراضگی کا شفیق الرحمن پر رتی بھر بھی اثر نہیں ہوا۔ اسی اثنا میں مہاتما گاندھی کی رہنمائی میں مولانا محمود الحسن نے 29 اکتوبر 1920 کو جامعہ علی گڑھ کا سنگ بنیاد رکھا۔ جس کی آبیاری میں شفیق الرحمن قدوائی نے مہاتما گاندھی، حکیم اجمل خان، جواہر لال نہرو، مولانا ابو الکلام آزاد، مولانا محمد علی جوہر، ذاکر حسین، فخر الدین، ڈاکٹر مختار انصاری جیسے رہنماؤں کا کندھے سے کندھا ملا کر ساتھ دیا۔
شفق الرحمن نے سودیشی مہم اور عدم تعاون تحریک 1920 سے عوام الناس کو جوڑنے کے لیے دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ ملک کے مختلف شہروں کا دورہ کیا۔ جس کی پاداش میں محروس کر کے ویلور جیل میں ڈال دیے گئے۔ شفیق الرحمن قدوائی کی گرفتاری اور جیل جانے کی خبر ان کے والد کو ملی تو غصہ کی انتہا نہ رہی۔ انہوں نے فی الفور انہیں عاق کر دیا اور گھر کے دروازے ان کے لیے تا عمر بند کر دیے۔ لیکن ان کے والد محترم شیخ حسن الرحمن قدوائی سے مولانا محمد علی جوہر کے بڑے گہرے مراسم تھے، جن کی مداخلت اور سمجھانے سے شفیق کو معاف کر دیا۔
ویلور جیل میں ان کے ساتھ چکرورتی راج گوپال آچاری بھی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے تھے، جو ان کی ذہانت، طرز فکر، زندہ دلی اور بیدار مغزی سے بے حد متاثر ہوئے۔
راجہ گوپال آچاری اپنی ڈائری میں 11 مارچ 1922 کو ان کے تئیں اپنے تاثرات یوں رقم کرتے ہیں، ’’شفیق الرحمٰن (علی گڑھ) کے بارے میں میں کیا کہوں کہ میں ایسے شخص سے شناسائی اپنے لیے ایک اعزاز سمجھتا ہوں، میں نے کوئی نوجوان ان سے بہتر نہ پایا۔ ان سے زیادہ ضبط نفس رکھنے والا، نہ ان سے بڑھ کر خدا پرست، نہ ان سے زیادہ شریف اور باوضع۔‘‘
شفیق الرحمن قدوائی 22 جولائی 1922 کو چچازاد بہن صدیقہ قدوائی سے ازدواجی رشتہ میں بندھ گئے لیکن انقلابی سرگرمیوں سے منھ نہیں موڑا۔ جیسے ہی مہاتما گاندھی نے 1930 میں ترک موالات تحریک کا بگل بجایا اور ڈانڈی مارچ کے لیے رخت سفر باندھا، ویسے ہی شفق الرحمن نے اپنے والد کو خط لکھ کر اجازت طلب کی۔ جس کے بعد وہ پورے جوش و خروش اور توانائی کے ساتھ جدوجہد آزادی میں پیش پیش رہے۔
شفیق الرحمن نے گھنٹہ گھر دلّی کے نزدیک کانگریس پارٹی کی ایک کھلی میٹنگ منعقد کی جو پوری طرح کامیاب رہی لیکن چار روز بعد ہی حکومت مخالف کارروائی کے جرم میں حراست میں لے لیے گئے۔ ایک ماہ دہلی جیل میں رکھنے کے بعد انہیں لائل پور جیل بھیج دیا گیا۔ اسی دوران مہاتما گاندھی اور لارڈ ارون کے مابین معاہدہ طے پایا، جس کے سبب شفیق الرحمن قید فرنگ سے چھوٹے۔ جامعہ ملیہ کے تعلیمی اور انتظامی امور کی ذمہ داری کو انجام دینے کے لیے عملی سیاست سے دوری اختیار کر لی۔ تاہم 1942 میں بھارت چھوڑو تحریک کا نعرہ بلند ہوتے ہی موصوف بھی سرگرم عمل ہو گئے اور ’باغی‘ کے عنوان سے پرچے چھپوا کر عوام میں تقسیم کرنے کے علاوہ مختلف شعبوں میں بھیجے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شعبہ تعلیم بالغان کی خدمات کے مدنظر یونیسکو کی طرف سے انڈونیشیا میں تعلیم بالغان کے ناظم اعلیٰ بنا کر بھیجے گئے۔
مادر ہند کے مخلص سپوت شفیق الرحمن قدوائی نے جشن آزادی کا پانچواں سورج دیکھنے سے قبل ہی 2 اپریل 1953 کو اس عالم فانی کو الوداع کہہ دیا لیکن شومی قسمت ان کی وطن کے تئیں بے لوث خدمات اور قربانیاں تاریخ ہند کا ایک گم شدہ باب بن کر رہ گیا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔