کرناٹک میں ریڈی برادران نے بگاڑ دیا بی جے پی کا حساب کتاب، نقصان کے اندیشہ نے بنگلورو سے دہلی تک مچائی ہلچل

اپنی پارٹی کے آر پی پی کو لانچ کرنے سے پہلے جناردن ریڈی نے زمینی سطح پر بہت کام کیا ہے، بتایا جاتا ہے کہ وہ گزشتہ انتخاب میں ہارنے والی سبھی پارٹی امیدوار کے رابطے میں ہیں۔

بی جے پی کا پرچم، تصویر آئی اے این ایس
بی جے پی کا پرچم، تصویر آئی اے این ایس
user

ناہید عطا اللہ

وہ ’بیلاری برادران‘ یا ’بیلاری بیرنس‘ کے نام سے مشہور ہیں۔ یہ اولادیں ہیں ایک پولیس کانسٹیبل کی۔ جی جناردن ریڈی بڑے ہیں اور وہ اس کانکنی گھوٹالہ کے کلیدی ملزم ہیں جس کی وجہ سے کرناٹک کو 16 ہزار کروڑ کا جھٹکا لگا۔ حالانکہ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ اور بی جے پی نے جناردن ریڈی سے غیر رسمی طور پر دوری بنا لی، لیکن یہ دونوں بھائی اراکین اسمبلی بنے رہے۔ ان دونوں کے ساتھ مضبوط رشتہ رکھنے والے اور ان کے دوست شری رامولو ریاستی حکومت میں وزیر برائے ٹرانسپورٹ ہیں۔

اس درمیان کرناٹک میں جناردن ریڈی کے ذریعہ گزشتہ ماہ ایک نئی سیاسی پارٹی کے اعلان نے دلچسپی کی لہر پیدا کر دی ہے۔ کرناٹک کے اس بڑے سیاسی واقعہ پر بی جے پی کا آفیشیل رخ یہی ہے کہ اس سال مئی کے اسمبلی انتخاب پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ لیکن زمینی حقیقت اس کے برعکس ہے۔

بی جے پی کے ساتھ ریڈی برادران کی نزدیکیاں 1990 کی دہائی میں شروع ہوئیں اور 2009 یا اس کے بعد تک رشتوں میں گرمجوشی رہی۔ ریڈی برادران نے آنجہانی سشما سوراج کو 1999 میں سونیا گاندھی کے خلاف لوک سبھا انتخاب لڑنے میں مدد کی اور بی جے پی کو بیلاری میں مضبوطی فراہم کرنے میں معاون رہے جو روایتی طور سے کانگریس کا قلعہ تھا۔

2008 میں جب بی جے پی ریاست میں اقتدار میں آئی، تو ریڈی کو ان کے بھائی کروناکر ریڈی اور ساتھی شری رامولو کے ساتھ کابینہ میں شامل کیا گیا۔ 2009 میں انھوں نے بغاوت کر دی اور بی جے پی کے 60 اراکین اسمبلی کو ایک ریسورٹ میں لے گئے جس نے اس وقت کے وزیر اعلیٰ یدی یورپا کو اپنے ایک قابل اعتماد اور اب ایک مرکزی وزیر شوبھا کرندلاجے کو کابینہ سے ہٹانے کے لیے مجبور کر دیا۔


بی جے پی کے ساتھ رشتوں میں آئی تلخی تب مزید بڑھ گئی جب کرناٹک لوک آیُکت نے جناردن ریڈی پر بڑے کانکنی گھوٹالے کا الزام عائد کیا جس سے ریاست کو مبینہ طور سے 16 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کا نقصان اٹھانا پڑا۔ اس معاملے میں ریڈی کو 2011 میں گرفتار کیا گیا اور 2015 میں وہ ضمانت پر رِہا ہوئے۔

بیلاری میں جناردن ریڈی کی بیوی ارونا لکشمی ہیں جو ان کی طرف سے نئی پارٹی کلیان راجیہ پرگتی پکش (کے آر پی پی) کا کام دیکھ رہی ہیں۔ ایسا اس لیے کہ عدالت کے حکم کی وجہ سے جناردن ریڈی کو اب بھی بیلاری جانے کی اجازت نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے ان کے بیلاری ضلع، اننت پور اور کڈپا میں جانے پر روک لگا رکھی ہے اور 2015 میں مشروط ضمانت تو ملی، پھر بھی ان مقامات پر جانے کی روک برقرار رہی۔ اکتوبر 2022 میں جناردن ریڈی کی طرف سے شرطوں کو ترمیم کرنے اور انھیں بیلاری ضلع میں داخل ہونے، رہنے اور کام کرنے کی اجازت دینے کی اپیل کی گئی جسے عدالت نے خارج کر دیا۔

بنگلورو میں بی جے پی کے اندرونی ذرائع کا ماننا ہے کہ جناردن ریڈی کے ذریعہ نئی پارٹی شروع کرنے کا واحد ارادہ بی جے پی کے قومی جنرل سکریٹری (تنظیم) بی ایل سنتوش کو شرمندہ کرنا ہے۔ ریڈی برادران کا ماننا ہے کہ سنتوش نے ہی بی جے پی کو جناردن ریڈی سے دور کرنے میں اہم کردار نبھایا۔

دیگر ذرائع کا دعویٰ ہے کہ کے آر پی پی کو لانچ کرنے سے پہلے ریڈی نے زمینی کام بہت کیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ گزشتہ انتخاب میں ہارنے والی سبھی پارٹیوں کے امیدواروں کے رابطے میں تھے۔ انھیں اس سال ممکنہ کے آر پی پی امیدوار مانا جا رہا ہے۔ نجومیوں سے پوچھ کر ہر فیصلہ کرنے والے ریڈی نے مبینہ طور پر ممکنہ امیدواروں کو اپنی کنڈلی جمع کرنے کے لیے کہا ہے۔


حالانکہ تاریخی طور سے علاقائی پارٹیوں نے کرناٹک کے انتخابات میں خراب مظاہرہ کیا ہے، لیکن بی جے پی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی محتاط ہے کیونکہ ان کے سامنے بی جے پی کے سابق قدآور لیڈر اور سابق وزیر اعلیٰ بی ایس یدی یورپا کے ’کرناٹک جنتا پکش‘ کی مثال ہے، جس نے 29 انتخابی حلقوں میں بی جے پی کے آفیشیل امیدواروں کی شکست یقینی کی تھی۔

غور طلب ہے کہ ریاست کی بی جے پی حکومت سی بی آئی کے ذریعہ جناردن ریڈی کی ملکیتوں کو قرق کرنے کی اجازت کی گزارش کو دبائے بیٹھی ہے۔ عدالت نے اس پر حکومت سے وضاحت طلب کی ہے۔ اگست 2022 میں سی بی آئی نے بھی ریڈی کی ملکیتوں کو ضبط کرنے کی اجازت مانگی تھی اور الزام لگایا تھا کہ ان لوگوں نے یہ ملکیت غیر قانونی طور سے جمع کی۔ اس درمیان مرکزی ایجنسی نے آندھرا پردیش اور تلنگانہ میں 219 نئی ملکیتوں کا پتہ لگانے کا دعویٰ کیا ہے جنھیں مبینہ طور پر غیر قانونی پیسوں سے خریدی گئیں۔

مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے 224 رکنی اسمبلی میں 150 سیٹیں جیتنے کا ہدف رکھا تھا۔ فی الحال تو بسوراج بومئی کی قیادت والی ریاستی حکومت کے ایک کے بعد دوسرے بحران میں پھنس جانے سے یہ ایک مشکل ہدف دکھائی دیتا ہے۔ وزیر اعلیٰ پارٹی کے ان سینئر لیڈروں کو منانے میں لگے ہیں جو ان کے کام سے خفا ہیں۔ وہ خاص ذاتوں کے لیے ریزرویشن کوٹہ بڑھا رہے ہیں اور انتخاب میں ان کی حمایت کی امید کر رہے ہیں۔

جولائی 2021 میں لنگایت لیڈر بی ایس یدی یورپا کی جگہ لینے والے بومئی ریاست میں آر ایس ایس لابی کو خوش کرنے والے فیصلے لینے میں مصروف ہیں۔ اخلاقی پولیسنگ، مذہب تبدیلی مخالف قوانین، مندروں کو سرکاری کنٹرول سے آزاد کرنے کی ان کی تجویز ایک خاص طبقہ کو خوش کرنے کے لیے ہی تھی۔ لیکن ٹھیکیداروں کے ساتھ بدعنوانی کے الزام عوام یاد میں تازہ ہیں جس میں کل پروجیکٹ لاگت کا 40 فیصد تک کمیشن مانگا جا رہا تھا۔ بنگلورو میں ووٹر ڈاٹا چوری اور ساحلی علاقہ میں بے روک ٹوک فرقہ وارانہ قتل اور تشدد نے حکومت کی شبیہ داغدار کی ہے۔


آئندہ انتخاب میں ممکنہ نقصان کے ازالہ کے لیے بی جے پی پرانے میسورو علاقہ پر دھیان مرکوز کر رہی ہے جہاں جنتا دل (ایس) اور کانگریس روایتی حریف ہیں اور سالوں سے جیت رہے ہیں۔ اس علاقہ میں کولار سے لے کر چامراج نگر ضلع تک 90 سیٹیں ہیں۔ 2018 کے گزشتہ انتخاب میں بی جے پی نے میسورو، چامراج نگر اور ہاسن میں ایک ایک سیٹ جیتی تھی جبکہ مانڈیا اور بنگلورو دیہی میں کھاتہ بھی نہیں کھول سکی تھی۔ بعد میں ہوئے ضمنی انتخاب میں اسے مانڈیا میں ایک سیٹ ملی۔

ریاست میں درج فہرست ذات کے لیے ریزرویشن کو 15 فیصد سے بڑھا کر 17 اور درج فہرست قبائل کے لیے 3 سے بڑھا کر 7 فیصد کرنے کے فیصلے کے پیچھے بھی انتخاب ہی ہے۔ ریاست میں درج فہرست ذاتوں کی 16 فیصد اور درج فہرست قبائل کی 6.9 فیصد آبادی ہے۔ بی جے پی رکن اسمبلی ہرش وردھن کہتے ہیں ’’امید ہے کہ بڑھے کوٹے کو مرکزی حکومت جلد منظوری دے گی اور جب پارٹی اگلی حکومت بنائے گی تو ایس سی-ایس ٹی کو زیادہ نمائندگی دی جائے گی۔‘‘

بومئی حکومت نے دو مضبوط طبقات- ووکالیگا اور لنگایت کے لیے موجودہ کوٹہ نظام میں دو نئے درجات بنانے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ ووکالیگا جے ڈی (ایس) کا ووٹ بینک رہے ہیں جبکہ شمالی کرناٹک میں 100 انتخابی حلقوں میں لنگایت طبقہ کا دبدبہ ہے۔ اس سے پرجوش بی جے پی لیڈروں کا کہنا ہے کہ 2018 کے اسمبلی انتخاب میں پرانے میسور علاقہ کی 52 سیٹوں پر بی جے پی امیدواروں کی ضمانت ضبط ہو گئی تھی، لیکن ایسا اس لیے تھا کیونکہ حکومت بنانے میں جے ڈی (ایس) کے ذریعہ حمایت کی امید میں کمزور امیدواروں کو میدان میں اتارا گیا تھا۔ لیکن کوٹہ نے امکانات کو بہتر کیا ہے اور اس بار مضبوط امیدوار اتارے جائیں گے۔

ان سب کے علاوہ بی جے پی امید کر رہی ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی اور مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ اپنے جارحانہ مہموں کے ساتھ قیادت کرنے میں اہل ہوں گے اور پارٹی کو کرناٹک کے اقتدار میں واپس لانے میں مدد کریں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔