جس ہندو مذہب کی بھاگوت بات کرتے ہیں وہ نظریہ ملک کا نہیں سنگھ کا ہو سکتا ہے: راہل گاندھی
راہل گاندھی نے کہا کہ ان کی سنگھ کے ساتھ ایک نظریاتی لڑائی ہے اور وہ اپنا گلا کٹا سکتے ہیں لیکن سنگھ کے دفتر نہیں جا سکتے۔
’جن ہندوؤں کی اور ہندو مذہب کی سنگھ سربراہ موہن بھاگوت بات کر رہے ہیں وہ اس ملک کے ہندو مذہب کا نظریہ نہیں ہے، وہ آر ایس ایس کا مذہب ہو سکتا ہے‘ یہ بات کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے ہوشیارپور میں پریس کانفرنس کے دوران ایک صحافی کے سوال کے جواب میں کہی۔ انہوں نے کہا کہ بھارت جوڑو یاترا کے دوران انہوں نے بھاگوت والے ہندو مذہب کو کہیں نہیں دیکھا۔ انہوں نے اس تعلق سے بھگوان رام کی ہمدردی کا بھی ذکر کیا۔ ان سے سوال کیا گیا تھا کہ حال ہی میں موہن بھاگوت نے بیان دیا ہے کہ ’ہندوؤ ں کا جارح ہونا قدرتی بات ہے اور مسلمانوں کو اپنی بالادستی والی ذہنیت ترک کرنی ہوگی۔‘
بی جے پی کے رہنما اور اپنے چچا زاد بھائی ورن گاندھی کے تعلق سے انہوں نے کہا کہ وہ ان سے مل سکتے ہیں اور ان کے ساتھ گلے لگ سکتے ہیں، لیکن انہوں نے سنگھ کے نظریہ کو اپنایا ہے اس لئے وہ ان کے ساتھ نہیں جا سکتے۔ انہوں نے کہا ’میری سنگھ کے ساتھ ایک نظریاتی لڑائی ہے اور میں اپنا گلا کٹا سکتا ہوں لیکن سنگھ کے دفتر نہیں جاؤں گا۔‘
صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے راہل گاندھی نے کہا کہ ملک میں امیر اور غریب کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ راہل گاندھی نے کہا کہ ملک کے ایک فیصد لوگوں کے پاس ملک کی 40 فیصد دولت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں 21 لوگوں کے پاس اتنا پیسہ ہے جتنا 70 کروڑ لوگوں کے پاس ہے۔ انہوں نے کہا ملک میں 21 امیروں کی جگہ کئی ہزار امیر ہونے چاہئے تاکہ زیادہ لوگوں کے پاس پیسہ ہو۔
کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ پنجاب نہیں پورے ملک کا مسئلہ بڑھتی بے روزگاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ چھوٹے کاروبار اگر صحیح چلیں گے اور کسانوں کے مسائل حل ہوں گے تو اس سے بے روزگاری کا مسئلہ حل ہوگا اور اس کے حل ہونے کے ساتھ نشہ سمیت کئی مسائل حل ہوں گے۔
راہل گاندھی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ بی جے پی کا ایک نفرت کا نظریہ ہے اب اس بھارت جوڑو یاترا نے دوسرا نظریہ پیش کیا ہے اس لئے اب ملک کے سامنے دو نظریات ہیں اور لوگوں نے بھارت جوڑو یاترا سے پیدا ہونے والے نظریہ کو قبول کر لیا ہے۔
راہل گاندھی نے ایک مرتبہ پھر دہرایا کہ ذرائع ابلاغ مرکزی مدوں سے توجہ ہٹانے کی کوشش کرتا ہے اور اس کے لئے وہ شاہ رخ خان، سچن تیندولکر اور ایشوریہ رائے کی خبروں کو دکھاتے ہیں اور مرکزی مدے بے روزگاری اور کسانوں کے مسائل سے توجہ ہٹ جاتی ہے۔ اس بات کو سمجھانے کے لئے انہوں نے جیب کترے کی مثال بھی دی، جس میں انہوں نے کہا کہ جیب کترا اکیلا نہیں آتا بلکہ ان کے ساتھ تین چار لوگ آتے ہیں اور ایک توجہ ہٹاتا ہے اور دوسرا جیب صاف کر دیتا ہے۔ انہوں نے کہا ٹھیک اسی طرح ذرائع ابلاغ کام کر رہا ہے۔
84 کے فسادات پر پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جو پارلیمنٹ میں سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ اور کانگریس کی سابق سربراہ سونیا گاندھی نے افسوس کا اظہار کیا ہے وہ اس کے ساتھ ہیں اور یہ بات وہ پہلے بھی کہہ چکے ہیں۔ انہوں نےعام آدمی پارٹی کی موجودہ حکومت کے بارے میں کہا کہ ان کے پاس ایک موقع تھا لیکن پنجاب کے عوام ان سے خوش نہیں ہیں اور اب کانگریس کے لئے اچھا ماحول ہے۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں یہ بھی کہا کہ بی جے پی یہ تو نہیں کہے گی کہ کہ وہ سب جگہ ہار رہے ہیں لیکن بھارت جوڑو یاترا کے دوران مجھے احساس ہوا ہے کہ عوام میں ان کے خلاف کافی ناراضگی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔