گاندھی پر وزیر اعظم مودی کا بیان، لا علمی یا سیاست؟

حقیقت یہ ہے کہ مودی جی نے گاندھی جی کے بہانے کانگریس پر جو الزام لگایا ہے وہ صرف اوچھی سیاست کا نمونہ ہے اور حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

<div class="paragraphs"><p>وزیر اعظم نریندر مودی، تصویر یو این آئی</p></div>

وزیر اعظم نریندر مودی، تصویر یو این آئی

user

سراج نقوی

ایک ٹی وی چینل کو دیے گئے انٹرویو میں وزیر اعظم نریندر مودی نے بابائے قوم مہاتما گاندھی کے تعلق سے بہت عجیب بات کہی ہے۔ مودی نے چینل سے بات کرتے ہوئے یہ سوال اٹھایا ہے کہ ’کیا ان 75 برسوں میں ہماری ذمہ داری نہیں تھی کہ پوری دنیا مہاتما گاندھی کو جانے... لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا۔‘ مودی نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ’رچرڈ ایٹن برو کی فلم ’گاندھی‘ بننے کے بعد دنیا نے مہاتما گاندھی کو جانا۔‘ قیاسِ غالب ہے کہ  ٹی وی اینکر کو لکھ کر دیے گئے سوالات میں اینکر کے سامنے یہ متبادل تو تھا نہیں کہ وہ مودی سے سوال کرتا کہ اگر دنیا فلم ’گاندھی‘ سے پہلے بابائے قوم کو نہیں جانتی تھی تو ’گاندھی‘ کے ڈائریکٹر پروڈیوسر رچرڈ ایٹن برو کس طرح گاندھی کو اس حد تک جان گئے کہ انھوں نے غیر ملکی ہوتے ہوئے بھی گاندھی پر فلم بنا دی؟

گاندھی سے متعلق ذکر اس سوال کے جواب میں آیا کہ جس میں وزیر اعظم سے ہندوستانی سماج اور ثقافت کے تعلق سے اپوزیشن کی سمجھ کے بارے میں دریافت کیا گیا تھا۔ صحافتی شعور سے عاری انٹرویو لینے والے نے یہی سوال خود مودی کے تہذیبی و ثقافتی شعور کے تعلق سے کیوں نہیں کیا، اس کا اندازہ قارئین خود لگا سکتے ہیں۔ اس لیے کہ وزیر اعظم یا ان کی پارٹی نے اپنے تعلق سے کیے گئے ہر سوال سے نہ صرف دامن بچایا ہے بلکہ کبھی کبھی تو ایسے سوالوں کی قیمت بھی سوال پوچھنے والوں کو ادا کرنی پڑی ہے۔ نرگسیت کی شکار شخصیات میں عام طور پر یہ مزاج پایا جاتا ہے کہ وہ اپنے اوپر لگنے والے الزامات کا رخ مخالفین کی طرف موڑنے کو ہی اپنی کامیابی تصور کرتے ہیں اور اپنے خلاف ہونے والے ہر سوال پر خوف کی نفسیات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ زیر بحث انٹرویو میں بھی مودی کے جواب سے یہی ثابت ہوتا ہے۔ اس لیے کہ مودی صرف یہیں نہیں رکے کہ گاندھی جی کو فلم ’گاندھی‘ بننے سے پہلے دنیا نہیں جانتی تھی، بلکہ انھوں نے پوچھے گئے سوال کو راست طور پر اپوزیشن کے عمل سے جوڑتے ہوئے یہ الزام بھی لگایا کہ ’انھوں (اپوزیشن) نے سیاست کے شارٹ کٹ ڈھونڈے ہیں۔ اس لیے وہ ووٹ بینک کی سیاست میں پھنس گئے ہیں، اور ووٹ بینک کی سیاست میں پھنسنے کے سبب وہ لوگ انتہائی فرقہ پرست ہو گئے، انتہائی ’جاتی وادی‘ ہو گئے، انتہائی کنبہ پرست ہو گئے۔‘ اب مودی کے اس بیان کی روشنی میں خود بی جے پی، آر ایس ایس اور مودی کے عمل کا محاسبہ کریں تو روز روشن کی طرح یہ واضح ہو جائے گا کہ وہ جو الزام اپوزیشن پارٹیوں پر لگا رہے ہیں، اس کا سب سے زیادہ عملی نمونہ خود انھوں نے اور ان کی پارٹی نے پیش کیا ہے، گجرات فسادات میں مودی کو عدالت سے ملنے والی ’کلین چٹ‘ کی بات کو درست مان لیں تب بھی ان پر اور ان کی حکومت پر خود ان کا مذکورہ بیان صادق آتا ہے۔


جہاں تک مہاتما گاندھی کے تعلق سے اپوزیشن پارٹیوں پر لگائے گئے ان کے الزام کا تعلق ہے تو یہ بھی سطحی سیاست کا ہی ایک نمونہ ہے۔ مودی نے کس طرح یہ مان لیا کہ رچرڈ ایٹن برو کی فلم ’گاندھی‘ سے پہلے دنیا میں کوئی مہاتما گاندھی کو جانتا نہیں تھا۔ یہ گاندھی جی اور ان کے فلسفے اور مختلف موضوعات کے تعلق سے ان کی فکر کا ہی نتیجہ تھا کہ جس نے رچرڈ ایٹن برو جیسے بڑے ڈائریکٹر کو بھی ان پر فلم بنانے کے لیے مجبور کر دیا۔ رچرڈ نے گاندھی جی کے بارے میں اپنی فلم میں جو کچھ دکھایا وہ معلومات انھیں بی جے پی، سنگھ یا مودی جی نے نہیں دی تھیں۔ البتہ فرقہ پرست طاقتوں کے ہیرو ناتھورام گوڈسے کے ذریعہ گاندھی جی کو قتل کیے جانے کے تعلق سے رچرڈ ایٹن برو اچھی طرح جانتے تھے کہ اسے یہ ترغیب دینے کے پس پشت کون سے عناصر کار فرما تھے۔ کیا یہ تاریخ کو مسخ کرنے کی سطحی کوشش نہیں کہ ایک طرف تو مودی یہ کہتے ہیں کہ اپوزیشن پارٹیوں یا کانگریس نے گاندھی جی کو متعارف کرانے کی کوئی کوشش نہیں کی، لیکن یہ بات کہتے وقت وہ گاندھی کے قاتلوں پر انگلی اٹھانے سے خود کو بچائے رکھتے ہیں۔ ٹی وی اینکر میں بھی یہ حوصلہ نہیں ہوا کہ وہ اس مسئلے پر مودی سے سوال کرتا۔ شاید اس لیے کہ اپنی نوکری گنوانے کا حوصلہ ہر ایک میں نہیں ہوتا۔

بہرحال جہاں تک وزیر اعظم مودی کے اس مضحکہ خیز دعوے کا تعلق ہے کہ گاندھی جی کو فلم ’گاندھی‘ سے پہلے کوئی جانتا تک نہیں تھا، تو یہ بیان کم علمی سے زیادہ سیاسی اعتبار سے اپنے مخالفین کو بدنام کرنے کے لیے ہی دیا گیا ہے۔ وزیر اعظم بخوبی جانتے ہیں کہ گاندھی کے قاتل سے ہمدردی رکھنے والے ان کی پارٹی میں بڑی تعداد میں ہیں، اس کے باوجود اگر وہ گاندھی کا نام لے کر اپوزیشن اور خصوصاً کانگریس کو بدنام کرنا چاہتے ہیں تو اسے اوچھا سیاسی حملہ ہی کہا جائے گا، اور اس سے خود مودی کی ذہنی کیفیت پر بھی سوالیہ نشان لگ جائے گا۔


مجھے نہیں معلوم کہ entire politics میں مودی جی کو یہ بات بتائی گئی ہوگی یا نہیں کہ جب مہاتما گاندھی جنوبی افریقہ میں وہاں کے عوام کے شہری حقوق کی جنگ لڑ رہے تھے، اور جیل بھی جا چکے تھے تب ہی انھیں 1914 یا 15 میں رابندر ناتھ ٹیگور نے ’مہاتما‘ کا لقب دے دیا تھا۔ جنوبی افریقہ کو برطانوی سامراج سے آزادی دلانے والے نیلسن منڈیلا کو جنوبی افریقہ کا گاندھی رچرڈ ایٹن برو کی فلم آنے کے بعد نہیں کہا گیا۔ خود منڈیلا گاندھی جی کی پالیسیوں کے بڑے پیروکار تھے، اور اس کا اظہار انھوں نے مختلف مواقع پر کیا۔ جنوبی افریقہ میں ’ستیہ گرہ ہاؤس‘ کی موجودگی وہاں کے عوام میں گاندھی جی کی مقبولیت کا جیتا جاگتا  اور فلم ’گاندھی‘ ریلیز ہونے سے بہت پہلے کا ثبوت ہے۔ کیا گاندھی کو جانے بغیر جنوبی افریقہ میں ان کی یہ یادگاریں قائم ہو گئیں؟ صرف منڈیلا ہی نہیں بلکہ امریکہ میں سیاہ فام آبادی کے حقوق کی جنگ لڑنے والے مارٹن لوتھر کنگ سمیت ایسی کئی بین الاقوامی شہرت کی حامل شخصیات ہیں کہ جنھوں نے گاندھی جی کے تئیں اپنی عقیدت و احترام کا اظہار کیا اور اس اظہار کے پس پشت فلم گاندھی کا کوئی رول نہیں۔ البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ گاندھی کی فکر اور نظریات یا ان کی جدوجہد کی حمایت کرنے والوں کے ساتھ عالمی سطح پر ایک طبقہ ایسا بھی ہے کہ جو گاندھی جی کے ناقدوں میں شامل ہے، لیکن اس سے گاندھی جی کی عالمی سطح پر عدم مقبولیت اور لوگوں میں ان کے تعلق سے لاعلمی ثابت نہیں ہوتی۔

مودی جی کو ممکن ہے یہ بات بھی نہ پتہ ہو کہ گاندھی جی پر پہلی کتاب ان کے ایک افریقی دوست جوزف ڈوک نے لکھی تھی اور یہ کتاب رچرڈ ایٹن برو کی فلم سے بہت پہلے 1919 میں شائع بھی ہو گئی تھی۔ یہ دراصل گاندھی جی پر تحریر کی گئی پہلی سوانح تھی۔ گاندھی جی کو کانگریس کے ذریعہ متعارف نہ کرانے کا الزام لگانے اور اس موضوع پر مضحکہ خیز تبصرہ کرنے سے پہلے مودی جی کو یہ بھی جان لینا چاہیے تھا کہ جب گاندھی جی جنوبی افریقہ میں تھے تب ہی وہاں بسے ہوئے ایک لتھوانیا کے صحافی ہرمن کالن باک نے گاندھی جی کی صلاحیتوں سے متاثر ہو کر نوجوان گاندھی کو اپنی تحریروں میں نہ صرف متعارف کرایا بلکہ ان کی جدوجہد میں بھی بھرپور ساتھ دیا۔ گاندھی جی کی جدوجہد اورا ن کی فکر سے متاثر ہونے والی پہلی یوروپی خاتون میرابین بھی فلم ’گاندھی‘ کی ریلیز سے پہلے ہی گاندھی جی کی شخصیت سے متاثر ہو کر ہندوستان کی تحریک آزادی میں ان کی ساتھی بن چکی تھیں۔ مودی جی کو شاید یہ بھی پتہ نہ ہو کہ ایک سروے میں گاندھی جی کو دنیا کے اب تک کے مقبول ترین افراد میں 683ویں نمبر پر رکھا گیا ہے، اور اس کا سبب رچرڈ ایٹن برو کی فلم ’گاندھی‘ نہیں ہے۔ اس فہرست میں ہی البرٹ آئینسٹائن، ملکہ الزابتھ، خود رچرڈ ایٹن برو، مشہور باکسر محمد علی، ہیریسن فورڈ، یوسین بولٹ، چارلس ڈکنس، مارٹن لوئیس، انتھونی ہاپکنس، مارلن منرو اور ان جیسے دیگر اہم افراد شامل ہیں۔


حقیقت یہ ہے کہ مودی جی نے گاندھی جی کے بہانے کانگریس پر جو الزام لگایا ہے وہ صرف اوچھی سیاست کا نمونہ ہے اور حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔