لوک سبھا انتخابات: کپتان کچھ بھی بولے لیکن عوام کی عافیت خاموش رہنے میں ہی ہے...سید خرم رضا

دونوں کپتانوں کی حقیقی بات کو سمجھنے میں چاہے جتنا وقت لگے لیکن جیت آج نہیں تو کل سچائی کی ہی ہوگی اور اگر اقلیتوں نے خاموشی توڑ دی تو ان کی محنت ضائع ہو جائے گی

<div class="paragraphs"><p>تصویر بشکریہ ایکس</p></div>

تصویر بشکریہ ایکس

user

سید خرم رضا

عام انتخابات 2024 کے بہت سے رنگ اور بہت سے پہلو ہیں، تاہم ہر رنگ جدا اور ہر پہلو مختلف ہے۔ میدان میں دو اتحاد آمنے سامنے ہیں اور ہم مانیں یا نہ مانیں لیکن دونوں اتحاد کی کپتانی ایک ایک قائد کرتا نظر آ رہا ہے۔ این ڈی اے یعنی بر سر اقتدار جماعت کی قیادت والے اتحاد کی کپتانی وزیر اعظم مودی کر رہے ہیں اور یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ یہ وہ کپتان ہیں جنہوں نے اپنے اتحاد کو جیتانے کی تمام ذمہ داری اپنے سر لے رکھی ہے۔ حزب اختلاف کا اتحاد یعنی انڈیا نامی اتحاد جس کی قیادت کانگریس کر رہی ہے، اس کے کپتان بظاہر تو راہل گاندھی نظر آ رہے ہیں لیکن انہوں نے جیت کی ذمہ داری کھلاڑیوں میں بانٹ دی ہے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ان انتخابات میں این ڈی اے نامی اتحاد کے کپتان یعنی وزیر اعظم نریندر مودی نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے، چاہے وہ امیدواروں کا انتخاب ہو یا انتخابی مدوں پر حتمی فیصلہ لینا ہو۔ اور صرف انتخابات ہی نہیں بلکہ کس مدے پر کہاں اور کیسے بولنا ہے اس کا فیصلہ بھی وہ خود ہی کر رہے ہیں۔ وہ کبھی کبھی اپنے نائب کپتان امت شاہ کی مدد لے لیتے ہیں لیکن باقی کھلاڑیوں کو چاہے نڈا ہوں، راجناتھ سنگھ ہوں، اسمرتی ایرانی ہوں یا اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ ہوں، کھیلنے کے لئے بیٹ اور گیند تو دے دی گئی ہے لیکن ان کا کب اور کہاں استعمال کرنا ہے اس کا فیصلہ اتحاد کے کپتان ہی کو کرنا ہے۔


دوسرے اتحاد کی حالت بالکل مختلف ہے اس میں کپتان آئین کی حفاظ کو لے کر چھکے چوکے لگاتے ہیں لیکن ان کے اتحاد کے باقی کھلاڑی جہاں اپنے کپتان کی بات کو آگے بڑھاتے ہیں وہیں وہ اپنے انداز سے بیٹنگ اور بولنگ بھی کرتے ہیں۔ جیسے تیجسوی یادو نوکریوں کا تڑکا لگاتے ہیں، اکھلیش یادو پی ڈی اے کو لے کر چوکے چھکے لگاتے ہیں، تو مہاراشٹر میں ادھو اور شرد پوار اپنے انداز سے بلے بازی کر رہے ہیں یعنی کپتان کی بات تو کہنی ہے لیکن اپنے انداز سے گیند کو کھیلنا بھی ہے اور پھینکنا بھی ہے۔

برسر اقتدار جماعت کی قیادت والے اتحاد کو انتخابی مہم کے پہلے دن سے ایسا محسوس ہوا کہ انتخابات کو رام مندر کی تعمیر اور اقلیت مخالف ماحول کی پچ پر ہی کھیلنا ہے اور اس پر رن بنانے اور وکٹ لینے کی ذمہ داری اس اتحاد کے کپتان نے اپنے سر لے لی۔ لہذا کپتان نے جہاں رام مندر کی ’پران پرتشٹھا‘ میں ہندو مذہبی رہنماؤں کو مدعو نہیں کیا، وہیں انتخابی مہم کے دوران 400 پار، منگل سوتر، بھینس، ٹونٹی، گھس پیٹھیے، مجرا اور گاندھی پر کس طرح بولنا ہے اس کا فیصلہ بھی کپتان کو ہی کرنا ہے۔ کتنے انٹرویو دینے ہیں اور آخری دن کہاں اور کیسے وقت گزارنا ہے یہ بھی خود کپتان کو ہی طے کرنا ہے۔


اس سارے کھیل میں جہاں ہندوستان کے عوام خاموش ہیں اس کا سہرا ملک کے ماحول کو جاتا ہے کیونکہ ملک کے طبقوں میں پھیلی تقسیم کو یہاں کے عوام سمجھتے ہیں اور اسی تقسیم کی وجہ سے یا تو وہ سامنے والے کے حساب سے بولتے ہیں یا پھر جن کو وہ اپنا معتمد خاص سمجھتے ہیں ان کے سامنے بولتے ہیں یعنی کل ملا کر وہ خاموش ہی رہتے ہیں۔ ویسے تو ایسی پر اثرار خاموشی کسی کو اچھی نہیں لگتی لیکن ایک طبقہ یعنی اقلیت کی خاموشی کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ اقلیتوں کی اس خاموشی کو خوف یا دور اندیشی جس خانے میں بھی رکھا جائے وہ ملک اور وقت کی ضرورت ہے۔

برسر اقتدار جماعت کی قیادت والے اتحاد کے کپتان نے اقلیتوں کے خلاف بہت کچھ کہا لیکن اقلیتوں کی خاموشی نے ان کے تمام منصوبوں کو ناکام کر دیا اور عوام میں اس کپتان کی مقبولیت متاثر ہوئی۔ اس وقت اس خاموشی کے تعلق سے یہی کہا جا سکتا ہے کہ ’ایک چپ سو کو ہرائے۔‘ اقلیتوں کو اس خاموشی کو ملک کی ترقی اور اپنے ہم خیال عوام کے مفاد میں برقرار رکھنی ہوگی۔ نتائج کسی کے حق میں بھی آئیں لیکن ملک کی ترقی کے لئے خاموشی ضروری ہے۔ دونوں کپتانوں کی حقیقی بات کو سمجھنے میں چاہے جتنا وقت لگے لیکن جیت آج نہیں تو کل سچائی کی ہی ہوگی اور اگر اقلیتوں نے خاموشی توڑ دی تو ان کی محنت ضائع ہو جائے گی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔