یوگیندر یادو اور سہاس پلشیکر نے این سی ای آر ٹی کی نئی کتابوں میں اپنا نام ہونے پر کیا اعتراض، قانونی کارروائی کی تنبیہ

یوگیندر اور سہاس نے ایک خط میں کہا ہے کہ ’’ہمارے ناموں کے ساتھ شائع کی گئی ان کتابوں کے نئے ایڈیشن کو فوراً بازار سے واپس لیا جائے، اگر ایسا نہیں ہوا تو ہم قانونی ترکیب کا سہارا لینے کو مجبور ہوں گے‘‘

<div class="paragraphs"><p>این سی ای آر ٹی، تصویر آئی اے این ایس</p></div>

این سی ای آر ٹی، تصویر آئی اے این ایس

user

قومی آواز بیورو

ماہر تعلیم یوگیندر یادو اور سہاس پلشیکر نے 17 جون کو قومی تعلیمی و تحقیقی تربیت کونسل (این سی ای آر ٹی) کو خط لکھ کر نئی نصابی کتابوں میں ان کے نام ہونے پر اعتراض ظاہر کیا ہے اور تنبیہ کی ہے کہ ان کے نام والی یہ کتابیں فوراً بازار سے نہیں ہٹائی گئیں تو وہ قانونی ترکیب کا سہارا لیں گے۔

یوگیندر اور سہاس کا کہنا ہے کہ نصابی کتابوں کے تجزیہ سے انھوں نے خود کو الگ کر لیا تھا۔ اس سلسلے میں انھوں نے ایک خط لکھا جس میں کہا ہے کہ وہ نہیں چاہتے این سی ای آر ٹی ان کے نام کی آڑ لے کر طلبا کو سیاسیات کی ایسی کتابیں دے جو سیاسی طور سے جانبدار، اکیڈمک طور پر کمزور اور تعلیمی طور پر نامناسب ہے۔


دراصل یوگیندر اور سہاس دونوں ہی پالٹیکل سائنس یعنی سیاسیات کی نصابی کتابوں کے لیے چیف ایڈوائزر تھے۔ انھوں نے گزشتہ سال کہا تھا کہ نصابی کتابوں کے مواد کو گھٹانے کی قواعد نے کتابوں کو اکیڈمک طور پر نامناسب بنا دیا ہے اور کتابوں سے ان کے نام ہٹائے جانے کا مطالبہ بھی انھوں نے کیا تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ کتابیں پہلے ان کے لیے وقار کی بات تھیں، لیکن اب یہ شرمندگی کا سبب بن گئی ہیں۔

دراصل حال میں بازار میں دستیاب کی گئی کتابوں کے ترمیم شدہ ایڈیشن میں اب بھی پلشیکر اور یوگیندر کے نام کا تذکرہ چیف ایڈوائزر کی شکل میں کیا گیا ہے۔ اس تعلق سے دونوں نے خط لکھا ہے جس میں بتایا ہے کہ ’’چنندہ طریقے سے مواد ہٹانے سے متعلق قبل کی روایت کے علاوہ این سی ای آر ٹی نے اہم ترامیم اور از سر نو تحریر کا سہارا لیا ہے جو بنیادی نصابی کتابوں کی روح کے موافق نہیں ہے... این سی ای آر ٹی کو ہم میں سے کسی سے مشورہ کیے بغیر ان نصابی کتابوں میں چھیڑ چھاڑ کرنے کا کوئی اخلاقی یا قانونی حق نہیں ہے، لیکن ہمارے واضح طور پر منع کرنے کے باوجود ہمارے نام کے ساتھ انھیں شائع کر دیا گیا۔‘‘ اس خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’کسی بھی تصنیف کے مصنف ہونے کے کسی شخص کے دعوے کے بارے میں دلیل اور بحث کی جا سکتی ہے۔ لیکن یہ حیرانی کی بات ہے کہ مصنف اور مدیر کا نام ایسی تصنیف کے ساتھ جوڑا گیا ہے جنھیں اب وہ اپنا نہیں مان رہے ہیں۔‘‘


واضح رہے کہ این سی ای آر ٹی سیاسیات کی بارہویں درجہ کی ترمیم شدہ نصابی کتاب ایک بار پھر تنازعہ کا شکار ہے۔ اس میں بابری مسجد کا تذکرہ نہیں کیا گیا ہے، بلکہ اسے ’تین گنبد والا ڈھانچہ‘ بتایا گیا ہے۔ نصابی کتابوں سے حال میں ہٹائے گئے مواد میں کچھ اہم چیزیں شامل ہیں جس پر ماہرین تعلیم اعتراض ظاہر کر رہے ہیں۔ مثلاً گجرات کے سومناتھ سے ایودھیا تک بی جے پی کی رتھ یاترا، کارسیوکوں کا کردار، بابری مسجد منہدم کیے جاتے وقت فرقہ وارانہ تشدد، بی جے پی حکمراں ریاستوں میں صدر راج اور ایودھیا میں جو کچھ ہوا اس پر بی جے پی کا افسوس ظاہر کرنا۔

ان سبھی باتوں کو مدنظر رکھ کر یوگیندر اور سہاس نے خط میں لکھا ہے کہ ’’ہمارے ناموں کے ساتھ شائع کی گئیں ان کتابوں کے جدید ایڈیشن کو فوراً بازار سے واپس لیا جائے... اگر این سی ای آر ٹی فوراً ایسا نہیں کرتی ہے تو ہم قانونی ترکیب کا سہارا لینے کو مجبور ہوں گے۔‘‘ یوگیندر اور سہاس نے جب نصابی کتاب سے خود کو الگ کیا تھا تو این سی ای آر ٹی نے کاپی رائٹ ملکیت کی بنیاد پر اس میں تبدیلی کرنے اور اپنے اختیار کا تذکرہ کیا اور کہا تھا کہ ’’کسی ایک رکن کے ذریعہ اس سے رشتہ ختم کرنے کا سوال ہی نہیں اٹھتا، کیونکہ نصابی کتابیں اجتماعی کوشش کا نتیجہ ہیں۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔