’زمین خالی کرانے سے قبل بازآبادکاری کی جائے‘، ہلدوانی معاملے میں سپریم کورٹ کی اہم ہدایت

جسٹس سوریہ کانت نے کہا کہ بہت سے لوگ ہیں جو دعویٰ کررہے ہیں کہ ان کے پاس ٹائیٹل و دستاویزات ہیں۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ یہ تجاوزات کئے ہوئے ہیں تب بھی یہ سوال باقی ہے کہ کیا یہ لوگ انسان نہیں ہیں؟

<div class="paragraphs"><p>سپریم کورٹ آف انڈیا / تصویر: آئی اے این ایس</p></div>

سپریم کورٹ آف انڈیا / تصویر: آئی اے این ایس

user

قومی آواز بیورو

اتراکھنڈ کے ہلدوانی میں ریلوے کی زمین پر تجاوزات کے معاملے کی سماعت بدھ کو سپریم کورٹ میں ہوئی۔ اس دوران سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ یہ لوگ بھی انسان ہیں اور ایسے میں ریلوے کے لیے ضروری ہے کہ انہیں یہاں سے ہٹانے سے قبل ان کی بازآبادکاری کرے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ عدالت ظالمانہ رویہ اختیار نہیں کر سکتی ۔ اتھارٹی کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ہلدوانی ریلوے کی زمین پر قبضہ کرنے والے لوگوں کی بازآبادکاری کی جائے تاکہ ریلوے اسٹیشن کا ڈیولپمنٹ ہو سکے۔

سپریم کورٹ نے اتراکھنڈ کے چیف سکریٹری سے کہا ہے کہ وہ ہلدوانی میں ریلوے کی زمین پر مبینہ طور پر قبضہ کرنے والے 50 ہزار لوگوں کی باز آبادکاری کے سلسلے میں مرکز اور ریلوے حکام کے ساتھ میٹنگ کریں۔ مرکزی حکومت کی درخواست پر سپریم کورٹ کے جسٹس سوریہ کانت کی سربراہی والی بنچ کے سامنے سماعت جاری ہے۔ دراصل گزشتہ سال 5 جنوری کو سپریم کورٹ نے اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے فیصلے پر روک لگا دی تھی۔ ہائی کورٹ نے ریلوے کی 29 ایکڑ اراضی پر سے تجاوزات ہٹانے کا حکم دیا تھا۔ مرکزی حکومت نے اس فیصلے پر سپریم کورٹ کی طرف سے لگائے گئے اسٹے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست داخل کی تھی جس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے مذکورہ ہدایات دی ہیں۔


جسٹس سوریہ کانت کی قیادت والی تین ججوں کی بنچ نے ریاستی حکومت سے کہا ہے کہ وہ اس معاملے میں ایک اسکیم بنائے تاکہ ان لوگوں کی بازآبادکاری کی جاسکے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ ظاہر ہے کہ یہ لوگ کئی دہائیوں سے اس زمین پر رہ رہے تھے اور اپنی روزی کما رہے تھے۔ یہ لوگ انسان ہیں اور عدالت ان پر ظلم نہیں کر سکتی۔ عدالت نے کہا کہ اس معاملے میں متوازن نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔ سپریم کورٹ نے ریاستی حکومت سے کہا کہ وہ ایسی زمین تلاش کرے جہاں بنیادی ڈھانچہ تیار کیا جاسکے۔ واضح رہے کہ ان 50 ہزار افراد میں سے زیادہ تر کا تعلق مسلم کمیونٹی سے ہے۔

سپریم کورٹ نے ریلوے سے سوال کیا کہ کیا اس نے مبینہ تجاوزات کے لیے کچھ کیا؟ یہ لوگ کئی دہائیوں سے یہاں رہ رہے ہیں۔ ان کے خلاف قانونی کارروائی شروع کر دی گئی ہے، کیا آپ نے کوئی نوٹس جاری کیا ہے؟ اگر وہ تجاوزات کر رہے ہیں تو نوٹس جاری ہونا چاہیے تھا۔ آپ ان لوگوں کو وہاں سے ہٹا کر جگہ خالی کرنا چاہتے ہیں لیکن یہ لوگ بھی انسان ہیں۔ اس دوران ایڈیشنل سالیسٹر جنرل نے کہا کہ ان کے خلاف قانونی دفعات کے تحت کارروائی کی جا رہی ہے جو زیر التوا ہے۔ جسٹس سوریہ کانت نے کہا کہ بہت سے لوگ ہیں جو دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان کے پاس ٹائیٹل اور دستاویزات ہیں۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ یہ تجاوزات کرنے والے لوگ ہیں تب بھی یہ سوال باقی ہے کہ کیا یہ لوگ انسان نہیں ہیں؟ یہ لوگ کئی دہائیوں سے یہاں رہ رہے ہیں۔ وہاں ان کا پختہ گھر ہے۔ عدالت ظالم نہیں ہو سکتی لیکن ساتھ ہی عدالت تجاوزات کی حوصلہ افزائی بھی نہیں کر سکتی آپ کو بطور ریاست اس معاملے میں کچھ کرنا چاہیے کیونکہ سب کچھ آپ کی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے۔


سپریم کورٹ نے کہا کہ وہاں سینکڑوں خاندان دہائیوں سے رہ رہے ہیں۔ عدالت نے مرکزی حکومت اور اتراکھنڈ حکومت سے کہا کہ وہ ایسی جگہ کی نشاندہی کو یقینی بنائیں جہاں ضروری انفراسٹرکچر تیار کیا جا سکے یا ریلوے لائن شفٹ کی جا سکے۔ جن خاندانوں کو بے دخل کیا گیا ہے ان کی شناخت کو یقینی بنایا جائے۔ مجوزہ جگہ کی نشاندہی کی جانی چاہیے جہاں بازآبادکاری کا کام کیا جا سکتا ہے۔ سپریم کورٹ نے اتراکھنڈ کے چیف سکریٹری سے کہا کہ وہ ایک میٹنگ کریں جس میں ریلوے اتھارٹی کے افسران اور مرکزی حکومت کے شہری امور کے افسران کو شامل کیا جائے اور میٹنگ میں یہ طے کیا جائے کہ بازآبادکاری کیسے ہو سکتی ہے اور یہ سب تمام فریقوں کے لیے منصفانہ اور قابل قبول ہونا چاہیے۔ عدالت نے ان تمام اقدامات کے لیے چار ہفتوں کا وقت دیتے ہوئے اگلی سماعت کے لیے 11 ستمبر کی تاریخ مقرر کی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔