ہریانہ اسمبلی تحلیل کرنے کی سفارش، ایوان میں اپوزیشن کا سامنا کرنے سے بچنے کے لیے بی جے پی کا اقدام!
ہریانہ میں ایسی آئینی صورتحال پیدا ہوئی ہے جس کے لیے پوری طرح سے بی جے پی حکومت ذمہ دار ہے
ہریانہ میں وزیر اعلیٰ نائب سنگھ سینی کی قیادت والی بی جے پی حکومت نے اسمبلی تحلیل کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ کابینہ کے اچانک طلب کئے گئے اجلاس میں کیا گیا۔ وزیر زراعت کنورپال گورجر، وزیر صحت کمل گپتا، وزیر تعمیرات عامہ ڈاکٹر بنواری لال، شہری اداروں کے وزیر سبھاش سدھا، ٹرانسپورٹ کے وزیر اسیم گوئل اور وزیر کھیل سنجے سنگھ کی موجودگی میں اسمبلی کو تحلیل کرنے کی وزیر اعلی کی تجویز پر اتفاق کیا گیا۔ جس کے بعد ریاست میں صدر راج نافذ ہونا یقینی سمجھا جاتا ہے۔
دراصل، ریاست ہریانہ میں ایک آئینی صورتحال پیدا ہو گئی ہے جس کے لیے پوری طرح سے بی جے پی حکومت ذمہ دار ہے۔ دو اسمبلی اجلاسوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ 6 ماہ کے وقفے کی شرط کو پورا نہ کر کے، بی جے پی نے ہریانہ کو صدر راج کے حوالے کرنے کی صورتحال پیدا کر دی ہے۔ یہ جان بوجھ کر کیا گیا اور قانون ساز اجلاس میں اپوزیشن کا سامنا کرنے سے بچنے کے لیے آئینی بحران پیدا کر دیا گیا۔
آئین کے ماہرین کے مطابق 6 ماہ کے وقفے کے دوران اسمبلی کا اجلاس طلب کرنا آئینی طور پر لازمی ہے۔ 14ویں ہریانہ اسمبلی، جس کی میعاد 3 نومبر 2024 تک ہے، اس کا آخری ایک روزہ خصوصی اجلاس 5 ماہ قبل 13 مارچ 2024 کو طلب کیاا گیا تھا۔ آئین کے آرٹیکل 174 (1) کے تحت 12 ستمبر 2024 سے پہلے موجودہ ریاستی اسمبلی کا اجلاس بلانا لازمی ہے، چاہے وہ ایک دن یا آدھے دن کا ہی کیوں نہ ہو۔
آئین میں واضح طور پر درج ہے کہ سابقہ اجلاس کی آخری نشست اور بعد کے اجلاس کی پہلی نشست کے درمیان 6 ماہ کا وقفہ نہیں ہونا چاہیے۔ حکومت نے گزشتہ کابینہ کے اجلاس میں مانسون اجلاس کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا۔ ایسے میں حکومت کے پاس ایک ہی آپشن رہ گیا تھا کہ وہ گورنر سے ہریانہ اسمبلی کو قبل از وقت تحلیل کرنے کی سفارش کرے۔
یہ آئینی بحران بھی تاریخی ہے، کیونکہ ملک کی آزادی کے بعد سے ایسی صورتحال کبھی پیدا نہیں ہوئی۔ ہریانہ میں ہی کورونا کے دوران اس بحران کو ٹالنے کے لیے ایک روزہ اجلاس طلب کیا گیا تھا۔ 6 ماہ میں اجلاس نہ بلانے کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اگرچہ آئینی ماہرین اسے محض کاغذی خانہ پری سمجھتے ہیں لیکن چونکہ یہ آئینی طور پر لازمی ہے اس لیے اسے ہر صورت پورا کرنا ہوتا ہے۔
نئے وزیر اعلیٰ نائب سینی نے 13 مارچ کو ریاستی اسمبلی کے آخری اجلاس میں اعتماد کا ووٹ حاصل کیا تھا۔ 15ویں اسمبلی کی تشکیل کے لیے انتخابات کے اعلان کے درمیان یہ صورتحال حکومت کے لیے انتہائی ناخوشگوار ہے۔ 5 اکتوبر کو ووٹنگ اور 8 اکتوبر کو گنتی ہونی ہے لیکن حکومت نے یہ صورتحال کیوں پیدا ہونے دی؟ وزیر اعلیٰ نائب سنگھ سینی خود کہہ رہے تھے کہ حکومت کے سامنے ایسی کوئی آئینی پابندی نہیں ہے۔
سیاسی پنڈت کہہ رہے ہیں کہ دراصل حکومت قانون ساز اجلاس بلا کر اپوزیشن کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی۔ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ ایسے وقت میں جب عوام میں 10 سالہ حکومت کو لے کر شدید ناراضگی ہے، اپوزیشن کو ایوان میں تمام مسائل اٹھانے کا موقع دیا جائے۔ وزیر اعلیٰ کا نیا ہونا بھی اس کی بڑی وجہ تصور کیا جا رہا ہے۔ قانون ساز اجلاس کا سامنا کیے بغیر الوداع کہہ کر، وزیر اعلیٰ نائب سنگھ سینی خود ایک ناپسندیدہ ریکارڈ میں پھنس گئے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔