ووٹ شماری کو لے کر اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی بھی مستعد، ووٹوں کی گنتی کے دوران کارکنان رہیں گے تعینات

لوک سبھا انتخابات کے ووٹوں کی گنتی سے قبل غالباً پہلی بار ایسا کیا گیا ہے کہ سیاسی جماعتوں، خصوصاً اپوزیشن پارٹیوں نے ورکشاپ وغیرہ کر کے اپنے کارکنان اور پولنگ ایجنٹس کو ووٹ شماری کی ٹریننگ دی ہے۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر قومی آواز/ویپن</p></div>

تصویر قومی آواز/ویپن

user

اسد رضوی

لوک سبھا انتخابات کی ووٹ شماری کل (4 جون، منگل) ہوگی۔ ووٹ شماری میں کسی قسم کی بے ضابطگی نہ ہو اور کوئی من مرضی نہ کر پائے، اس کے لیے سبھی سیاسی جماعتیں، خصوصاً اپوزیشن پارٹیاں مستعد ہیں۔ اپوزیشن پارٹیوں کے کارکنان گروپ میں ووٹ شماری مراکز کے باہر رہ کر لگاتار نگرانی کر رہے ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ کسان تنظیموں اور سول سوسائٹی نے بھی لگاتار ایشو اٹھایا ہے کہ ووٹ شماری کے دوران کسی بھی طرح کی بے ضابطگی نہ ہو، اس کا خیال رکھا جائے۔ دہلی میں اتوار کو اپوزیشن پارٹیوں کے نمائندہ وفد نے انتخابی کمیشن سے مل کر پوسٹل بیلٹ کی گنتی پہلے شروع کرانے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس سے قبل کسان مورچہ بھی الیکشن کمیشن کو خط لکھ کر وقت وقت پر ووٹوں کی درست تفصیل عوام کے ساتھ شیئر کرنے کی اپیل کر چکا ہے۔ اُدھر سول سوسائٹی کا بھی کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کے ذریعہ ووٹنگ کے اعداد و شمار وقت وقت پر بدلے جانے سے کمیشن کی غیر جانبداری پر سوال اٹھے ہیں۔


اس درمیان اپوزیشن پارٹیوں کا کہنا ہے کہ فارم سی- 17 کے ملاپ کے بعد ہی ووٹوں کی گنتی کا کام شروع کیا جانا چاہیے۔ اسی ضمن میں اتر پردیش کی وارانسی لوک سبھا سیٹ سے پی ایم مودی کے خلاف انتخاب لڑ رہے انڈیا اتحاد کے امیدوار اور اتر پردیش کانگریس کے صدر اجئے رائے کا کہنا ہے کہ کانگریس پارٹی کے کارکنان ووٹنگ کے بعد ای وی ایم اسٹرانگ روم اور ووٹ شماری مراکز پر لگاتار نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اجئے رائے کو اندیشہ ہے کہ حکومت و انتظامیہ کسی بھی طرح بی جے پی کو انتخاب میں کامیاب بنانے کی کوشش کر سکتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ووٹ شماری میں کسی بھی طرح کی بے ضابطگی نہ ہو، اس کے لیے کانگریس کارکنان پوری طرح مستعد ہیں۔

اجئے رائے نے بتایا کہ کئی مقامات پر سی سی ٹی وی کیمرے خراب ہونے کی خبر ملی تھی، جن کو شکایت کر کے ٹھیک کرایا گیا ہے۔ کانگریس کی تیاری کے بارے میں انھوں نے کہا کہ ہر ووٹ شماری مرکز پر 8 سے 10 کارکنان کو تعینات کیا گیا ہے۔ یہ کارکنا 8 سے 9 گھنٹے تک کی شفٹ میں لگاتار ووٹ شماری مراکز کے باہر تعینات ہیں۔


اسی طرح اتر پردیش کی اہم اپوزیشن جماعت سماجوادی پارٹی نے بھی اپنے کارکنان کو محتاط رہنے کی ہدایت دی ہے۔ سماجوادی پارٹی لیڈر عمیق جامئی نے کہا کہ ’ایگزٹ پول‘ کے اندازے سامنے آنے سے پارٹی کے کارکنان و لیڈران کے حوصلوں پر کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔ لیکن انھیں ووٹوں کی گنتی میں غیر جانبداری نہ ہونے کا اندیشہ ہے۔ انھوں نے بتایا کہ پارٹی کے سبھی کاؤنٹنگ ایجنٹ کو پیغام دیا گیا ہے کہ فارم سی 17 کے ملاپ کے بغیر ووٹوں کی گنتی شروع نہیں ہونی چاہیے۔ انھوں نے بتایا کہ ہر ووٹ شماری مرکز پر سماجوادی پارٹی کے 25 سے 30 پارٹی کارکنان نگرانی بنائے ہوئے ہیں۔

واضح رہے کہ اس مرتبہ غالباً پہلی بار ایسا کیا گیا ہے کہ سیاسی پارٹیوں نے ورکشاپ وغیرہ کر کے اپنے کارکنان اور پولنگ ایجنٹس کو ووٹ شماری کی ٹریننگ دی ہے۔ سماجوادی پارٹی کے صدر اور اتر پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے آج لکھنؤ میں کہا کہ ’فارم 17 سی کی کاپی ایجنٹس کے پاس ہے، ہماری پارٹی کے پاس دفتر میں وہ سارے فارم ہیں، کیونکہ ہمیں پتہ تھا کہ بی جے پی کسی بھی سازش میں شامل ہو سکتی ہے، اس لیے پہلے دن سے پوری جانکاری ہم لوگوں نے رکھی ہے۔‘‘


کیا ہے فارم 17 سی؟

ہر پولنگ بوتھ پر پریزائڈنگ افسر کو ایک فارم دیا جاتا ہے، جسے اس کو آن لائن ہی بھرنا ہوتا ہے۔ یہ کام ووٹنگ کا عمل ختم ہونے کے فوراً بعد ہی کرنا ہوتا ہے۔ اس فارم میں یہ تفصیل ہوتی ہے کہ کتنے لوگوں نے ووٹنگ کی، کتنے ووٹ کرنے نہیں پہنچے اور کتنے لوگوں کو ووٹ دینے کے قابل نہیں سمجھا گیا۔ یہ بھی بھرنا ہوتا ہے کہ ووٹنگ کے دوران کتنی ای وی ایم کا استعمال کیا گیا۔ کنٹرول یونٹ اور بیلٹ یونٹ کی تعداد اور نمبر بھی دینے ہوتے ہیں۔ اس عمل سے کسی بھی پولنگ سنٹر پر ووٹنگ کی صورت حال واضح ہو جاتی ہے اور یہ گنجائش نہیں رہتی کہ ووٹوں کے فیصد میں کوئی دھاندلی ہو پائے۔

اپوزیشن پارٹیوں کے علاوہ سول سوسائٹی بھی ووٹ شماری کو لے کر کافی محتاط ہے۔ ’اتر پردیش الیکشن واچ‘ سے منسلک لینن رگھوونشی کہتے ہیں کہ وقت وقت پر ڈاٹا بدلے جانے سے الیکشن کمیشن کی ساکھ پر منفی اثر پڑا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب لوگ ووٹ شماری کو بھی شبہات کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ رگھوونشی کے مطابق نئی حکومت کو الیکشن کمیشن کی شبیہ بدلنے پر کام کرنا ہوگا تاکہ مستقبل میں جمہوریت اور مضبوط رہ سکے اور سیاسی پارٹیوں کے ساتھ عوام کا الیکشن کمیشن پر بھروسہ برقرار رہے۔


اسی طرح ’ایسو سی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارم‘ (اے ڈی آر) کے سنجے سنگھ کہتے ہیں کہ لوگوں کو ووٹ شماری سے متعلق شبہات ہیں۔ لیکن ایسا ہونا نہیں چاہیے، کیونکہ اس کا منفی اثر ملک کی جمہوریت پر پڑے گا۔ اس شبہ کی وجہ بتاتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ایسی سوچ بن گئی ہے اور ووٹرس میں ایسا جذبہ ہے کہ ووٹ کسی کو بھی دیا جائے، جیتے گی تو بی جے پی۔ سنجے سنگھ مانتے ہیں کہ الیکشن کمیشن پر بھروسہ رکھنا چاہیے، لیکن اسٹرانگ روم پر نظر رکھنا غلط نہیں ہے۔

سنیوکت کسان مورچہ نے بھی الیکشن کمیشن کو خط لکھ کر ووٹ شماری کے عمل میں کسی بھی طرح کی چھیڑ چھاڑ کے اندیشے کو ختم کرنے پر زور دیا ہے۔ مورچہ کے لیڈر آشیش متل نے بتایا کہ شبہات کو دور کرنے کے لیے ضابطہ کے مطابق الیکشن کمیشن کو وقت وقت پر ووٹوں سے متعلق درست تفصیل پیش کرنی چاہیے۔


اس درمیان اتر پردیش کے الیکٹورل افسر نودیپ رِنوا نے بتایا کہ ووٹ شماری ریاست کے 75 اضلاع میں 81 ووٹ شماری مراکز پر ہوگی۔ آگرہ، میرٹھ، اعظم گڑھ، دیوریا، سیتاپور، کشی نگر ضلع مین ووٹ شماری 2-2 مراکز پر ہوگی۔ 8 لوک سبھا حلقوں کی ووٹ شماری 3 اضلاع میں 37 لوک سبھا حلقوں کی ووٹ شماری 2 اضلاع میں اور 35 لوک سبھا حلقوں کی ووٹ شماری 1 ضلع میں ہوگی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔