نیٹ پیپر لیک معاملے پر سپریم کورٹ میں ہوئی سماعت، حکومت نے ’پیپر لیک‘ کا کیا اعتراف

چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے پیپر لیک ہونے اور امتحانات کی شفافیت و رازداری پر اپنا موقف واضح کرتے ہوئے کہا کہ اگر امتحان کی دیانتداری سے سمجھوتہ کیا گیا ہے تو دوبارہ امتحان کا حکم دینا ہوگا۔

<div class="paragraphs"><p>سپریم کورٹ آف انڈیا /آئی اے این ایس</p></div>

سپریم کورٹ آف انڈیا /آئی اے این ایس

user

قومی آواز بیورو

نیٹ پیپر لیک معاملے پر آج (8 جولائی) سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے پیپر لیک ہونے اور امتحانات کی شفافیت و رازداری پر اپنا موقف واضح کرتے ہوئے کہا کہ اگر امتحان کی دیانتداری سے سمجھوتہ کیا گیا ہے تو دوبارہ امتحان کا حکم دینا ہوگا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے پیپر لیک ہوا ہے تو یہ جنگل کی آگ کی طرح پھیلتا ہے۔ اس معاملے میں اب آئندہ سماعت بدھ (11جولائی) کو ہوگی۔

دوبارہ نیٹ امتحان کا مطالبہ کرنے والے طلبہ کی جانب سے پیش ہوئے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ابتدائی طور پر بہار پولیس کے سامنے آنے والے حقائق بڑے پیمانے پر پیپر لیک ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ملک بھر میں ہوئے اس نیٹ امتحان میں 67 بچوں نے 720 میں سے 720 نمبر حاصل کیے جن میں سے 6 ایک ہی سنٹر کے تھے۔ اس پر عدالت نے پوچھا کہ ان میں سے کتنے طلباء ایسے ہیں جنہوں نے گریس نمبر حاصل کیے ہیں۔ وکیل نے جواب دیا، ایک بھی نہیں۔ اس جواب پر عدالت نے کہا کہ ’’نہیں، 2 سنٹر کے 1563 بچے ایسے تھے جن کو گریس مارکس دیے گئے اور ان میں سے 6 بچوں کے 720 میں سے 720 نمبرس آئے تھے۔‘‘

چیف جسٹس نے این ٹی اے سے کہا کہ 67 طلباء میں سے جنہیں 720 نمبر حاصل ہوئے ہیں، ان میں سے کتنے طلباء کو گریس نمبر ملے ہیں؟ اس کی پوری تفصیل دی جائے۔ اگر طلبہ کو امتحان کی صبح سوالیہ پرچہ پڑھنے یا جوابات یاد کرنے کے لیے کہا جاتا تو شاید اتنے وسیع پیمانے پر پیپر لیک نہیں ہوتا۔ اگر ہم غلط کام کرنے والے امیدواروں کی نشاندہی نہیں کر سکتے تو ہمیں دوبارہ امتحان کا حکم دینا ہوگا۔ سی جے آئی نے کہا کہ جن طلبہ کو 720 نمبر ملے ہیں ان میں سے کوئی ریڈ فلیگ یعنی خطرے کا اشارہ تو نہیں؟ اگر ایسا ہوتا ہے توکیا اس کی جانچ ہو سکتی ہے؟


عدالت نے کہا کہ اگر یہ پیپر لیک ٹیلی گرام/واٹس ایپ جیسے الیکٹرانک ذرائع سے ہوا ہے تو یہ جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتا ہے۔ اگر لیک 5 تاریخ کی صبح ہوا تو اس کے پھیلنے کا وقت محدود تھا۔ یہ 23 لاکھ طلباء کا معاملہ ہے۔ اس موقع پر این ٹی اے کی جانب سے پیش ہوئے ایس جی تشار مہتا نے کہا کہ ہم نے 100 ٹاپ رینکنگ طلباء کے پیٹرن کی جانچ کی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ 18 ریاستوں/مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے 56 شہروں میں 95 مراکز کے طالب علم تھے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کتنی ایف آئی آر درج ہوئی ہیں؟ این ٹی اے نے کہا کہ ایک واقعہ پٹنہ میں پیش آیا۔ باقی درخواست گزار 6 ایف آئی آر کا حوالہ دے رہے ہیں۔ عدالت چاہے تو ہم اس ضمن میں تفصیلی معلومات کل دے سکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے دوبارہ امتحانات کے چیلنجز کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ امتحان کی تیاری، انتظامات، طلباء کے سفر اور آمد و رفت کے اخراجات کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا۔

طلبہ کی جانب سے پیش ہوئے وکیل نے عدالت سے مزید کہا کہ امتحان سے ایک دن پہلے ٹیلی گرام پیلٹ فارم پر معلومات آئی کہ کل ہونے والے نیٹ کا امتحانی پرچہ یہاں موجود ہے اور اس امتحانی پرچے کی جوابی شیٹ بھی موجود ہے۔ طالب علموں کے وکیل نے کہا کہ این ٹی اے نے بھی اعتراف کیا ہے کہ کچھ طالب علموں کو غلط پرچے ملے تھے۔ اس طرح کے کئی معاملے سامنے آئے جہاں کہا گیا کہ نیٹ کا پیپر لیک ہو گیا ہے۔ پٹنہ میں اس معاملے میں ایف آئی آر بھی درج کی گئی ہے۔

عدالت نے سوال کیا کہ آپ کے پاس کون سے ثبوت ہیں جن کی بنیاد پر آپ دوبارہ جانچ کا مطالبہ کر رہے ہیں؟ اس پر وکیل نے کہا کہ اگر سسٹم کی سطح پر ہی فراڈ ثابت ہو رہا ہے تو اس سے پورے امتحان کی ساکھ پر سوال اٹھتا ہے۔ وکیل نے کہا کہ عدالت نے اس سے قبل کی سماعت کے دوران یہ بھی کہا ہے کہ ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ کوئی بھی طالب علم غلط یا بے ضابطگی کے ساتھ داخلہ نہ لے سکے۔ وکیل نے کہا کہ بہار پولس کی تحقیقات سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ یہ پورے نظام میں خامی رہی ہے۔


عدالتی شواہد کے معاملے پر طلبہ کے وکیل نے مزید کہا کہ ایک طرف این ٹی اے کہہ رہی ہے کہ بے ضابطگیاں چھوٹے پیمانے پر ہوئیں لیکن دوسری طرف مختلف ریاستوں میں ایف آئی آر درج ہونے کے بعد کیس کی تفتیش سی بی آئی کو سونپ دی گئی ہے۔ اس پر عدالت نے پوچھا کہ کیا این ٹی اے نے مان لیا ہے کہ پیپر لیک ہوا؟ سالیسٹر جنرل نے کہا کہ ایسا معاملہ صرف ایک جگہ پر سامنے آیا ہے، اس معاملے میں بھی ملزم کو گرفتار کیا گیا ہے اور پیر لیک سے فائدہ حاصل کرنے والے لوگوں کی بھی شناخت کی گئی ہے۔ سالیسٹر جنرل کی اس دلیل کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ پہلی بار حکومت نے عدالت میں تسلیم کیا ہے کہ پیپر لیک ہوا ہے۔ حکومت نے کہا کہ ایسی شکایت صرف پٹنہ میں ملی تھی جس میں ملزم کو گرفتار کیا گیا ہے۔

طلبہ کے وکیل نے کہا کہ ایسے حقائق سامنے آئے ہیں جہاں یہ واضح ہے کہ واٹس ایپ اور ٹیلی گرام چینلز پر پیپر لیک ہوا تھا۔ ہمارے پاس اس کے ثبوت موجود ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ لیک ہونے والا پیپر ایک اسکول میں وائی فائی پرنٹر کے ذریعے پرنٹ کیا گیا تھا۔ بہار پولس کی اب تک کی جانچ میں اس طرح کے مختلف گروہوں کے بارے میں معلومات ملی ہیں۔ اس پر سی جے آئی نے پوچھا یعنی آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ پورے امتحان کی ساکھ پر سوال۔ ایسے میں یہ جاننا مشکل ہو گیا ہے کہ فائدہ کس کو ہوا یا غلطی کس نے کی۔ عدالت نے دو نوں فریق کے دلائل سننے کے بعد سماعت 11 جولائی تک ملتوی کردی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔