جولین اسانج: آزادی کے لیے امریکہ سے ڈیل

اس سے پہلے کہ دنیا کو امریکہ کے ساتھ ان کے معاہدے کا علم ہوتا جولین اسانج 24 جون کی سہ پہر برطانیہ چھوڑنے کے لیے ایک پرائیویٹ جیٹ میں سوار ہو چکے تھے

<div class="paragraphs"><p>آزادی ملنے کے بعد ہاتھ ہلاتے جولین اسانج / Getty Images&nbsp;</p></div>

آزادی ملنے کے بعد ہاتھ ہلاتے جولین اسانج / Getty Images

user

مدیحہ فصیح

وکی لیکس کے بانی 52 سالہ جولین اسانج اپنے وطن آسٹریلیا واپس پہنچ گئے ہیں۔ انہوں نے 26 جون کو ایک امریکی جج کے سامنے ایک معاہدے کے تحت اپنے ’جرم‘ کا اعتراف کیا اور 12 سال بعد آزاد فضا میں سانس لی۔ ان کا طیارہ جب آسٹریلیا کے دارالحکومت کینبرا کے ہوائی اڈے پر اترا تو وہاں جمع ان کے حامیوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ انہوں نے ہاتھ ہلا کر ہجوم کا شکریہ ادا کیا۔ جیسے ہی وہ ٹرمینل کے قریب پہنچے، ان کی بیوی اسٹیلا کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری۔ انہوں نے پریس کانفرنس میں کہا کہ جولین چاہتے ہیں کہ وہ دل سے سب کا شکریہ ادا کریں۔ لیکن لوگوں کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ ان پر کیا گزری ہے۔ انہیں صحت یاب ہونے کے لیے وقت کی ضرورت ہے۔ لہذا، مہلت دیں، اس سے پہلے کہ وہ دوبارہ بول سکیں۔

آسٹریلیا کے سفر سے پہلے، 26 جون کو جب اسانج شمالی ماریانا جزائر، (جو کہ ایک دور دراز امریکی بحر الکاہل کا علاقہ ہے) سائپان میں کمرہ عدالت سے باہر آئے تو ان کے امریکی وکیل بیری پولاک نے کہا کہ اسانج نے آزادی اظہار اور آزادی صحافت کے لیے اپنی لڑائی میں بہت نقصان اٹھایا ہے۔ جاسوسی ایکٹ کے 100 سالوں میں جولین اسانج کے خلاف مقدمہ چلایا جانا بے مثال ہے۔ اسانج نے سچی معلومات کا انکشاف کیا۔ ہم پختہ یقین رکھتے ہیں کہ ان پر کبھی بھی جاسوسی ایکٹ کے تحت فرد جرم عائد نہیں کی جانی چاہیے تھی اور اسانج صرف اس کام میں مصروف تھے جس میں صحافی ہر روز مشغول ہوتے ہیں۔


اسانج کو 24 جون کی سہ پہر لندن کی ایک ہائی سیکورٹی جیل سے حیرت انگیز طور پر رہا کیا گیا۔ اس سے پہلے کہ دنیا کو امریکہ کے ساتھ ان کے معاہدے کا علم ہو جائے وہ برطانیہ چھوڑنے کے لیے ایک پرائیویٹ جیٹ میں سوار ہو چکے تھے۔ امریکی حکومت کے ساتھ معاہدے کے تحت شمالی ماریانا جزائر پر ایک امریکی عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت میں انہوں نے سرکاری طور پر امریکی فوجی تاریخ میں خفیہ مواد کی سب سے بڑی خلاف ورزیوں میں سے ایک میں اپنے مبینہ کردار پر، خفیہ معلومات حاصل کرنے اور پھیلانے کے لیے غیر قانونی طور پر سازش کرنے کا جرم قبول کیا۔

اسانج نے طویل عرصے سے امریکہ پر عدم اعتماد ظاہر کیا ہے، یہاں تک کہ اس پر اپنے قتل کی مبینہ سازش کا الزام بھی لگایا۔ لہذا وہ امریکہ میں قدم رکھنے میں ہچکچا رہے تھے، اور اس لیے استغاثہ نے تمام کارروائیوں کو ایک دن میں سائپان میں واقع امریکی وفاقی عدالت میں انجام دینے کو کہا۔ سائپان شمالی ماریانا جزائر کا سب سے بڑا جزیرہ اور دارالحکومت ہے، یہ امریکی ریاست ہوائی سے تقریباً 6 ہزار کلومیٹر مغرب میں واقع ہے۔ سابق وزیر اعظم اور اس وقت واشنگٹن میں آسٹریلیا کے سفیر کیون رڈ، جنہوں نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات میں مدد کی وہ بھی عدالت میں موجود تھے۔


جج رمونا منگلونا نے دریافت کیا کہ ان پر کیا الزام عائد کیا گیا ہے، اسانج نے اعتراف کیا کہ بطور صحافی کام کرتے ہوئے، انھوں نے اپنے ذرائع کو ایسی معلومات فراہم کرنے کی ترغیب دی جس کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ معلومات کلاسیفائیڈ یا خفیہ ہے۔ سزا سناتے ہوئے جج نے کہا کہ اسانج برطانوی جیل میں اپنی قید کے دوران گزارے گئے وقت کے کریڈٹ کے حقدار ہیں، ایسا لگتا ہے کہ 62 ماہ کی قید مناسب اور معقول ہے اور اسانج کمرہ عدالت سے آزاد آدمی کے طور پر نکل سکیں گے۔ جج نے اسانج کو بتایا کہ وقت کی اہمیت ہے اور وہ 10 سال پہلے کسی ایسی درخواست کو قبول کرنے کے لیے کم مائل ہوتیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس معاملے میں کوئی ذاتی نقصان نہیں پہنچا، اسانج کی کارروائی سے کوئی جسمانی چوٹ نہیں آئی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ برسوں سے امریکہ کا استدلال تھا کہ آزادی اظہار کا خود ساختہ چیمپئن، اسانج جانوں کو خطرے میں ڈالتا ہے اور قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔

اسانج اور ان کی وکی لیکس ویب سائٹ نے 2010 میں عراق اور افغانستان کی جنگوں سے متعلق سابق آرمی انٹیلی جنس تجزیہ کار چیلسی میننگ کی جانب سے لیکس کے بعد عالمی سطح پر مقبولیت حاصل کر لی تھی۔ ویب سائٹ نے ایک ویڈیو پوسٹ کی جس میں 2007 میں ایک امریکی فوجی ہیلی کاپٹر کو دو صحافیوں اور متعدد عراقی شہریوں پر فائرنگ کرتے ہوئے اور انہیں ہلاک کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ کئی ماہ بعد، اس نے 2004 سے متعلق 90 ہزار سے زائد خفیہ افغان جنگی دستاویزات کا انکشاف کیا۔ بعد میں 2010 میں جب اسانج کے خلاف جنسی زیادتی کے الزامات سامنے آئے تو وہ سویڈن کو مطلوب ہو گئے۔ دو سال بعد، اسانج نے مغربی لندن میں ایکواڈور کے سفارت خانے میں سیاسی پناہ لی۔ وہ تقریباً سات سال تک وہاں رہے جب تک کہ میٹروپولیٹن پولیس 2019 میں امریکی محکمہ انصاف کی جانب سے حوالگی کے وارنٹ پر عمل کرتے ہوئے ان کی محفوظ پناہ گاہ میں داخل نہ ہوئی۔


امریکہ کے ساتھ کی گئی ڈیل 14 سالہ قانونی ڈرامے کا اختتام ہے، حالانکہ یہ فوری طور پر واضح نہیں ہو سکا کہ ایسا ابھی کیوں ہوا۔ بڑے پیمانے پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ آسٹریلیا کے وزیر اعظم انتھونی البانیس نے پچھلے اکتوبر میں وائٹ ہاؤس کا دورہ کرتے وقت اسانج کا معاملہ اٹھایا تھا۔ 26 جون کو پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے، البانیس نے کہا کہ وہ خوش ہیں کہ اسانج اپنے گھر والوں کے پاس آسٹریلیا ا ٓ رہے ہیں۔ یہ محتاط، صبر اور پرعزم کام کا نتیجہ ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے حالیہ مہینوں میں ایک ممکنہ معاہدے کی طرف اشارہ کیا تھا جس پر آسٹریلیا کی حکومت نے اسانج کو آسٹریلیا واپس کرنے پر زور دیا تھا۔ تاہم، امریکی حکومت نے 25 جون کو پیش رفت سے خود کو دور کر لیا۔ قومی سلامتی کونسل کی ترجمان ایڈرین واٹسن نے سی این این کو بتایا، یہ ایک آزادانہ فیصلہ تھا جو محکمہ انصاف نے کیا تھا اور اس میں وائٹ ہاؤس کی کوئی مداخلت نہیں تھی۔

دریں اثناء کروشیا کے فلسفی سریکو ہوروت نے ’الجزیرہ‘ میں اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ لندن میں ایکواڈور کے سفارت خانے میں رہتے ہوئے جولین اسانج کے ساتھ بہت سی ملاقاتوں میں سے ایک کے دوران انہوں نے اسانج سے پوچھا کہ اگر وہ عمارت سے باہر نکل سکے تو وہ سب سے پہلے کیا کریں گے۔ اسانج نے اطمینان سے جواب دیا کہ وہ آسمان کی طرف دیکھیں گے۔ یہ 2016 کی بات ہے، اور اس وقت وہ آسمان کو دیکھے بغیر 2500 سے زیادہ دن گزار چکے تھے۔ تین سال بعد اپریل 2019 میں اسانج کو سفارت خانہ چھوڑنے کے لیے کہا گیا لیکن آسمان کی طرف دیکھنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ برطانوی پولیس نے عمارت میں گھس کر اسانج کو گرفتار کر لیا اور جنوبی لندن کی ہائی سیکورٹی بیلمارش جیل میں منتقل کر دیا، جہاں وہ اگلے پانچ سال تک قید رہے۔ ہوروت نے اپنے مضمون میں لکھا کہ ہم اسانج کی آزادی کا جشن منا رہے ہیں، لیکن ہمیں ان سنگین جرائم پر آنکھیں بند نہیں کرنی چاہئیں جو بیک وقت صرف اسانج کے خلاف ہی نہیں، بلکہ صحافت اور آزادی اظہار کے خلاف بھی نہ کئے جا رہے ہیں۔ آج، اسانج کو برسوں کی ستمگرانہ حراست کے بعد ایک بناوٹی ’جرم‘ کا اعتراف کرنے پر مجبور کیا گیا، لیکن حقیقی جرائم کے ذمہ دار وہ ہیں، جن کا اسانج نے پردہ فاش کیا۔ رائٹرز کے صحافیوں اور عراقی شہریوں کا قتل کرنے والے یہ لوگ اب بھی آزاد گھوم رہے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔