اتفاق رائے کی تبلیغ، تصادم کو فروغ...سونیا گاندھی کا مضمون

سونیا گاندھی نے اپنے مضمون میں کہا کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ وزیر اعظم نے انتخابی نتائج کو قبول کر لیا ہے یا ووٹروں کے ذریعہ انہیں بھیجے گئے پیغام پر غور کیا ہے

<div class="paragraphs"><p>سونیا گاندھی، ویڈیو گریب</p></div>

سونیا گاندھی، ویڈیو گریب

user

سونیا گاندھی

چار جون 2024 کو ہمارے ملک کے رائے دہندگان کے فیصلہ کا واضح اور شاندار انداز میں اعلان کیا گیا۔ اس نے ایک ایسے وزیر اعظم کی ذاتی، سیاسی اور اخلاقی شکست کا اشارہ دیا جس نے انتخابی مہم کے دوران خود کو روحانی حیثیت سے نوازا تھا۔ اس فیصلے نے نہ صرف اس طرح کے حربوں کی نفی کی بلکہ یہ تفرقہ بازی، تقسیم کاری اور نفرت کی سیاست اور نریندر مودی کی طرز حکمرانی اور اصل دونوں کو بھی واضح طور پر مسترد کر دیا۔

تال میل کا فقدان

اس سب کے باوجود وزیر اعظم اسی راستہ پر چل رہے ہیں جیسے کچھ بدلا ہی نہ ہو۔ وہ اتفاق رائے کی قدر کرنے کی تبلیغ کرتے ہیں لیکن تصادم کو اہمیت دیتے ہیں ۔ کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ وزیر اعظم نے انتخابی نتائج کو قبول کر لیا ہے یا ووٹروں کے ذریعہ انہیں بھیجے گئے پیغام پر غور کیا ہے۔ 18ویں لوک سبھا کے ابتدائی چند دن افسوسناک طور پر حوصلہ افزا نہیں رہے۔ ہم بدلے ہوئے رویہ کی جو بھی امید کر رہے تھے وہ دم توڑ گئی ہے۔ باہمی احترام اور تال میل کے ایک نئے جذبے  اور دوستی کے پیدا ہونے  تک کی امید دم توڑ گئی۔

میں قارئین کو یاد دلانا چاہوں گی کہ انڈیا بلاک کی جماعتوں نے وزیر اعظم سے اس وقت کیا کہا جب ان کے نمائندگان نے اسپیکر کے عہدے کے لیے اتفاق رائے طلب کیا۔ جواب سادہ اور سیدھا تھا: ہم نے کہا کہ ہم حکومت کا ساتھ دیں گے - لیکن روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ اس وقت ہی منصفانہ اقدام ہوتا جب یہ توقع کی جاتی کہ ڈپٹی اسپیکر کا عہدہ اپوزیشن کی صفوں میں سے کسی رکن کو دیا جائے گا۔ یہ معقول درخواست اس حکومت کی نظر میں  ناقابل قبول  رہی، جس نے 17 ویں لوک سبھا میں ڈپٹی اسپیکر کے آئینی عہدے پر نہیں کیا تھا۔

اور پھر، حیران کن طور پر وزیر اعظم اور ان کی پارٹی کی جانب سے ایمرجنسی کو بیچ میں گھسیٹ لیا گیا ، حتیٰ کہ اسپیکر کی طرف سے بھی جن کا موقف سخت غیر جانبداری کے علاوہ کسی بھی عوامی سیاسی موقف سے مطابقت نہیں رکھتا۔ آئین پر، اس کے بنیادی اصولوں اور اقدار پر، اس کے بنائے ہوئے اور بااختیار کئے گئے اداروں پر حملے سے توجہ ہٹانے کی یہ کوشش پارلیمنٹ کے کام کاج کے لیے بہتر نہیں ہے۔


یہ تاریخ کی حقیقت ہے کہ مارچ 1977 میں ہمارے ملک کے عوام نے ایمرجنسی پر ایک دوٹوک فیصلہ دیا جسے بلا جھجک اور بلاتاخیر قبول کیا گیا۔ اس کے تین سال سے بھی کم عرصے کے بعد مارچ 1977 میں جس پارٹی کو پست کر دیا گیا تھا وہ دوبارہ اقتدار میں آ گئی، ایسی اکثریت کے ساتھ جو مسٹر مودی اور ان کی پارٹی نے کبھی بھی حاصل نہیں کی، یہ بھی اس تاریخ کا اہم حصہ ہے۔

مسائل جن پر وسیع بحث کی ضرورت ہے

ہمیں آگے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ 146 ممبران پارلیمنٹ کی عجیب و غریب اور بے مثال معطلی، جو پارلیمنٹ کی سلامتی کی قابل مذمت خلاف ورزی پر جائز طور پر بحث کا مطالبہ کر رہے تھے، واضح طور پر اس بات کو یقینی بنانے کا ایک طریقہ تھا کہ تین دور رس مجرمانہ انصاف کے قوانین بغیر کسی بحث کے منظور کیے جا سکیں۔ کئی قانونی ماہرین اور بہت سے دوسرے لوگوں نے ان قوانین پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ کیا ان قوانین کو اس وقت تک التواء میں نہیں رکھا جانا چاہیے جب تک کہ وہ منظور شدہ پارلیمانی عمل کو مدنظر رکھتے ہوئے اور خاص طور پر 2024 کے انتخابی فیصلے کے بعد سے مکمل پارلیمانی جانچ پڑتال سے گزر نہ جائیں؟ اسی طرح، جنگلات کے تحفظ اور حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے قوانین میں ترامیم کو پچھلے سال اس وقت پیش کیا گیا جب پارلیمنٹ میں ہنگامہ اور افرا تفری تھی۔ ایک ماحولیاتی اور انسانی تباہی ہمارا انتظار کر رہی ہے کیونکہ گریٹر نیکوبار پروجیکٹ کو آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ کیا ان پر بھی نظر ثانی نہیں کی جانی چاہیے تاکہ وزیر اعظم کی بیان کردہ اتفاق رائے اور مکمل بحث و مباحثے کے بعد قوانین کی منظوری کی خواہش بامعنی ثابت ہو سکے؟

لاکھوں نوجوانوں کی زندگیوں کو تباہ کرنے والے نیٹ گھوٹالہ پر وزیر تعلیم کا فوری اور پہلا رد عمل جو کچھ ہوا اس کی تردید کرنا اور اس کی سنگینی سے انکار کرنا تھا۔ خود وزیر اعظم، جو 'پریکشا پہ چرچا' کی بات کرتے رہے ہیں، پیپر لیک کے پورے معاملے پر مشکوک طور پر خاموش ہیں، جس نے ملک کے کئی خاندانوں کو پریشان کر رکھا ہے۔ ایک نام نہاد 'اعلیٰ اختیارات والی' تشکیل دی گئی ہے لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ پچھلے دس سالوں میں این سی ای آر ٹی، یو جی سی اور یونیورسٹیوں جیسے تعلیمی اداروں کی پیشہ ورانہ مہارت کو بہت نقصان پہنچا ہے۔

اس دوران ملک میں اقلیتوں کے خلاف تشدد اور جبر کے واقعات میں ایک بار پھر اضافہ ہوا ہے۔ بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں اقلیتوں کو محض الزامات کی بنیاد پر قانونی طریقہ کار کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ان کے گھروں پر بلڈوزر چلا کر اجتماعی سزا دی جا رہی ہے۔ انتخابی مہم کے دوران وزیر اعظم نے لوگوں پر فرقہ وارانہ گالیوں اور صریح جھوٹ کے ذریعے جو حملے کئے تھے، اس کے بعد جو کچھ ہو رہا ہے وہ حیران کن نہیں ہے۔ انہوں نے اس خوف سے اشتعال انگیز بیانات کی مزید حوصلہ افزائی کی کہ الیکشن ان کے ہاتھوں سے پھسل رہا ہے، اس طرح انہوں نے اپنے عہدے کے وقار اور حرمت کو مکمل طور پر پامال کر دیا۔

فروری 2022 میں بی جے پی اور اس کے اتحادیوں کو منی پور اسمبلی انتخابات میں واضح اکثریت حاصل ہوئی۔ پھر بھی تین ماہ کے اندر منی پور میں آگ لگ گئی یا یوں کہئے کہ آگ لگا دی گئی۔ سینکڑوں لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور ہزاروں بے گھر ہو گئے۔ اس انتہائی حساس ریاست میں سماجی تانے بانے تباہ ہو گئے لیکن پھر بھی وزیر اعظم کو ریاست کا دورہ کرنے یا اس کے لیڈروں سے ملنے کا وقت نہیں ملا۔ اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ ان کی پارٹی نے وہاں لوک سبھا کی دونوں نشستیں کھو دیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ منی پور کے متنوع معاشرے میں موجود بحران کے تئیں ان کے غیر حساس رویہ پر کوئی اثر نہیں ہوا۔


چالیس روز سے زائد جاری رہنے والی انتخابی مہم کے دوران وزیر اعظم نے خود کو بہت نیچے گرا لیا۔ ان کے الفاظ نے ہمارے سماجی تانے بانے اور اس مقام کے وقار کو ناقابل بیان نقصان پہنچایا جس پر فائز ہونے کا انہیں اعزاز حاصل ہے۔ انہیں خود کا جائزہ لینا چاہئے اور یہ تسلیم کرنا چاہئے کہ 400 سے زیادہ پارلیمانی نشستوں کے لئے ان کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے، ہمارے کروڑوں لوگوں نے، جن سے وہ ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘ کا وعدہ کرتے ہیں، ایک طاقتور پیغام دیا ہے کہ بہت ہو چکا ہے۔

حزب اختلاف ہندوستان کی آواز بنے گی

انڈیا اتحاد کی جماعتوں نے واضح کر دیا ہے کہ وہ تصادم کا رویہ نہیں اپنانا چاہتیں۔ اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے تعاون کی پیشکش کی ہے۔ اتحاد میں شامل جماعتوں کے رہنماؤں نے واضح کیا ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں تعمیری تعاون فراہم کرنا چاہتے ہیں اور پارلیمنٹ کی کارروائی میں شفافیت چاہتے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ وزیر اعظم اور ان کی حکومت اس پر مثبت موقف اختیار کرے گی لیکن ابتدائی علامات اچھی نہیں ہیں، اس کے باوجود ہم اپوزیشن پارلیمنٹ میں توازن برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہیں تاکہ ملک کے ان کروڑوں لوگوں کی آوازوں اور خدشات کی نمائندگی ہو سکے، جنہوں نے ہمیں اپنے نمائندے کے طور پر ایوان میں بھیجا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ حکمران جماعت ہماری جمہوری ذمہ داریوں کو نبھانے میں آگے آئے گی۔

(مضمون نگار سونیا گاندھی رکن پارلیمنٹ اور کانگریس پارلیمانی پارٹی کی رہنما ہیں۔ یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ ’دی ہندو‘ میں انگریزی میں شائع ہوا)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔