ایرانی صدر کی موت حادثہ یا سازش؟... ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
ڈاکٹر ابراہیم رئیسی نے عالمی سطح پر ایران کی ساکھ بنائی، بہت کم وقت میں عالمی لیڈروں میں ان کا شمار ہونے لگا۔
ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی، وزیر خارجہ حسین امیر اللہیان، مشرقی آذربائیجان کے گورنر مالک رحمتی اور حکام کی ہیلی کاپٹر حادثہ میں المناک موت پر دنیا بھر کے سربراہان ممالک نے اپنے تعزیتی پیغامات میں گہرے دکھ اور صدمے کا اظہار کیا ہے۔ ابراہیم رئیسی کے خاندان، ایرانی عوام کے غم میں شریک ہونے اور ان کے ساتھ کھڑے رہنے کا یقین دلایا ہے۔ ایران میں ہیلی کاپٹر حادثہ کا یہ پہلا معاملہ نہیں ہے۔ سن 2000 سے اب تک 22 اس طرح کے بڑے حادثے ہو چکے ہیں۔ وہاں کا ایویشن (ہوابازی) نظام یو ایس پرسنلس کے تحت آتا تھا۔ 1979 سے اس پر پابندی ہے۔ ہیلی کاپٹر پرانے ہو چکے ہیں، ان کے کل پرزے بھی دستیاب نہیں ہیں۔ اس قافلہ میں تین ہیلی کاپٹر شامل تھے لیکن صرف وہی ہیلی کاپٹر حادثہ کا شکار ہوا جس میں ڈاکٹر رئیسی اور وزیر خارجہ سوار تھے۔ پھر یہ واقعہ ایسے وقت پیش آیا ہے جبکہ اسرائیل کے ساتھ ایران کے تعلقات کشیدہ چل رہے ہیں۔ ایسے میں شک شبہ پیدا ہونا فطری ہے۔
سوال یہ ہے کہ خراب موسم میں آذربائیجان کی طرف جانے کا مشورہ کس کا تھا۔ دوسرے، ایران اور آذربائیجان کے لمبے عرصہ سے تعلقات اچھے نہیں چل رہے۔ اس کے برعکس آذربائیجان کی اسرائیل سے قربت کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں موساد کے مخفی دفاتر ہیں۔ 3 جنوری 2020 کو ایران کے میجر جنرل قاسم سلیمانی بغداد ہوائی اڈے پر ڈرون حملے میں مارے گئے تھے۔ ایران اور اس کے آس پاس کی سیاست میں ان کا بڑا نام تھا۔ موساد اور سی آئی اے نے اس کی ذمہ داری لی تھی۔ یہ ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا کہ ان کی کس نے مخبری کی تھی۔ ویسے انتہائی اہم لوگوں کے موومنٹ پر اس طرح کی ایجنسیاں نظر رکھتی ہیں۔ تہران میں آذربائیجان کے سفارت خانہ پر حملہ ہوا تھا۔ اس میں سفارت خانہ کے گارڈ کی موت اور آدھا درجن لوگ زخمی ہوئے تھے۔ اس میں اسلامی گارڈس کا نام آیا تھا۔ ایران اور پاکستان کے درمیان بھی ڈرون حملے ہو چکے ہیں۔ حالانکہ ڈاکٹر رئیسی نے دونوں ممالک سے مصالحت کی تھی۔ آذربائیجان سے مصالحت کرانے میں او آئی سی کے ممالک نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ تیسرے، داخلی سطح پر ڈاکٹر رئیسی کی شبیہ ایک سخت حکمراں کی تھی۔ جبکہ ایران کے عوام دو حصوں میں بٹے ہیں۔ ایک طرف اسلام پر سختی سے عمل کرنے والے لوگ ہیں، دوسری طرف لبرل۔ حجاب نہ اوڑھنے کی وجہ سے مہسا امینی کو پولیس نے گرفتار کیا تھا، جس کی پولیس حراست میں موت ہو گئی تھی۔ اس واقعہ کے خلاف ایران میں بڑے پیمانے پر احتجاج ہوا جسے طاقت سے دبا دیا گیا۔
ڈاکٹر ابراہیم رئیسی نے عالمی سطح پر ایران کی ساکھ بنائی۔ بہت کم وقت میں عالمی لیڈروں میں ان کا شمار ہونے لگا۔ ایران میں اگلے سال صدر کے انتخابات ہونے والے تھے، مانا جا رہا تھا کہ وہ دوبارہ بلا مقابلہ منتخب ہو جائیں گے۔ خلیجی معاملوں کے ماہر ڈاکٹر ذاکر حسین کا کہنا ہے کہ ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای پچاسی سال کے ہو چکے ہیں۔ اگر وہ استعفیٰ دیتے ہیں یا خدا نخواستہ گزر جاتے ہیں تو ڈاکٹر رئیسی ان کی جگہ لے سکتے تھے۔ کیونکہ ایران کی مذہبی کونسل کی وہ پہلی پسند تھے۔ حالانکہ علی خامنہ ای کے صاحبزادے بھی اس کے دعویدار ہیں۔ جب کسی شخص کا قد بہت بڑا ہو جاتا ہے تو وہ اندرونی و بیرونی طاقتوں کے نشانہ پر آ جاتا ہے۔ پھر اسرائیل-فلسطین کی جنگ میں حماس کی مدد کرنے کا بھی ایران پر الزام ہے۔ پن پوائنٹ ٹارگیٹ کرنے میں اسرائیل کو مہارت حاصل ہے۔ جس طرح اس نے حماس، حزب اللہ کے لڑاکوں کو ٹارگیٹ کیا ہے۔ اس سے اس بات کا امکان ہے کہ رئیسی کے ہیلی کاپٹر کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہوا ہو۔ یا پھر اندرونی کسی شخص کو استعمال کر کے ہیلی کاپٹر میں کچھ رکھوا دیا گیا ہو۔ جیسے جنرل ضیاء الحق کے جہاز میں رکھوایا گیا تھا۔ ابھی کچھ دن قبل ایران میں کئی بم دھماکے ہوئے، جن کی تحقیقات جاری ہے۔ ایران کے اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات زیادہ اچھے نہیں رہے ہیں۔ اس کے باوجود امریکہ اور اسرائیل سیدھے طور پر اس طرح کے واقعہ کو انجام نہیں دے گا۔ کیونکہ اس کا پورے خطہ میں برا اثر پڑے گا۔ اس سے ان کی پالیسی متاثر ہوگی۔ اتنا بڑا خطرہ یہ مول لینا نہیں چاہیں گے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہیلی کاپٹر کسی تکنیکی خرابی کی وجہ سے حادثہ کا شکار ہوا ہو۔ ایران کی حکومت کا ابھی کوئی بھی آفیشیل بیان نہیں آیا ہے۔ ثبوت کے بغیر ہیلی کاپٹر سانحہ کو سازش کہا مناسب نہیں ہے۔
سوال یہ ہے کہ ڈاکٹر ابراہیم رئیسی کے بعد ایران کا کیا ہوگا؟ اچھی بات یہ ہے کہ وہاں کی جمہوریت کافی بالغ ہے۔ کسی شخص کے رہنے یا نہ رہنے سے کوئی اثر نہیں پڑتا۔ تبھی نائب صدر نے صدر کی ذمہ داری سنبھال لی۔ پوری دنیا سے آ رہے تعزیتی پیغامات کو وصول کر ان کا جواب دیا جا رہا ہے۔ وہاں کی لیڈرشپ نے افراد سازی پر خصوصی توجہ دی ہے۔ ایرانی انقلاب کے بعد کئی مواقع ایسے آ چکے ہیں جب ان کی پہلی صف کی لیڈر شپ ختم کر دی گئی، لیکن وہ ملک ٹوٹا نہیں۔ بھلے ہی صدر کا عہدہ اہم ہے لیکن ’چیک اینڈ بیلنس‘ یعنی توازن قائم رکھنے والا نظام کافی مضبوط ہے۔ اس لیے یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ رئیسی کے نہ رہنے سے ایران کی پالیسیاں متاثر ہوں گی۔ وہاں کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے بھی اپنے بیان میں اس کا اشارہ دیا ہے۔ مغربی میڈیا نے بھلے ہی ایران کی ایک خاص شبیہ بنا دی ہے، لیکن حقیقت میں یہ ایک مستحکم ملک ہے۔ اور یہاں کی لیڈر شپ کافی سلجھی ہوئی ہے۔ یہ کتنا ذمہ دار ملک ہے اس کا احساس اس بات سے ہوتا ہے کہ اس نے جو جوہری معاہدہ کیا تھا اور جس سے امریکہ خود باہر نکل آیا، اسے سلامتی کونسل کے ممالک کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ نے بھی سہارا دیا تھا۔
ایران ڈاکٹر ابراہیم رئیسی کے دور میں شنگھائی تعاون تنظیم کا ممبر بنا۔ ایران نے ریجنل مسائل کو سلجھانے میں کافی مدد کی ہے۔ سعودی عرب ایران کو اپنا دشمن سمجھتا تھا، رئیسی نے عرب ممالک کے ساتھ بھی اپنے بہتر تعلقات قائم کیے۔ افغانستان میں اس نے جو کام کیا اس کے نتیجہ میں ہندوستان کا چا بہار معاہدہ ہو سکا۔ ایک وقت آیا تھا جب چین نے وہاں بڑی سرمایہ کاری کر ہندوستان کو ریل پروجیکٹ سے باہر کر دیا تھا۔ لیکن رئیسی نے ہندوستان اور ایران کے برسوں پرانے تعلقات کو نبھاتے ہوئے چا بہار کا معاہدہ کیا۔ یہ معاہدہ بھلے ہی ان کے دور حکومت میں ہوا لیکن اس کی گتفگو 2012 سے چل رہی تھی۔ اس حادثہ سے ایران کو جو گہرا صدمہ اور نقصان ہوا ہے اس کی تلافی تو ممکن نہیں، لیکن ڈاکٹر رئیسی کے ذریعہ ہندوستان اور ایران کا جو تعلق قائم ہوا ہے، امید ہے وہ اس حادثہ سے کمزور نہیں ہوگا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔