ایران: ابراہیم رئیسی کے لیے ملک بھر میں تعزیتی اجلاس کا انعقاد، کل ’مشہد‘ میں ہوگی تدفین

ابراہیم رئیسی کے انتقال کے بعد ایران میں 5 روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا تھا، اس دوران اسکول اور دفاتر بند کر دیے گئے اور ان کی تعزیتی تقریب میں شرکت کے لیے تہران کی سڑکوں پر عوام کا جم غفیر دیکھا گیا۔

<div class="paragraphs"><p>ابراہیم رئیسی، تصویر سوشل میڈیا</p></div>

ابراہیم رئیسی، تصویر سوشل میڈیا

user

قومی آوازبیورو

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی اور وزیر خارجہ امیر عبداللہیان کو لے جانے والا ہیلی کاپٹر اتوار کو ایران کے مشرقی آذربائیجان صوبے کی سرحد سے واپسی کے دوران گر کر تباہ ہو گیا تھا۔ اس حادثے میں صدر اور وزیر خارجہ سمیت تمام 9 افراد کی موت ہو گئی تھی۔ اس حادثے کے بعد ایران سمیت دنیا بھر میں ابراہیم رئیسی کے حامی سوگوار ہیں۔ حادثے کے چار دن گزرنے کے باوجود ابراہیم رئیسی کی تدفین نہیں کی گئی ہے، کیونکہ ابھی مختلف مقامات پر تعزیتی اجلاس کا انعقاد ہو رہا ہے۔ ایران کے نائب صدر برائے انتظامی امور محسن منصوری نے پیر کے روز ہی اعلان کر دیا تھا کہ صدر ابراہیم رئیسی کو جمعرات کو ایران کے شمال مشرقی شہر مشہد میں سپرد خاک کیا جائے گا۔

ایران اسٹوڈنٹ نیوز نے صدر ابراہیم رئیسی اور ان کے ساتھ فوت ہونے والے لوگوں کے لیے ماتمی تقریب کے انعقاد کے بارے میں تفصیل سے خبر دی ہے۔ اس کے مطابق رئیسی کی تدفین سے قبل کئی شہروں میں ان کی سوگ میں تقریبات منعقد کی گئیں۔ دراصل پورے ایران میں ابراہیم رئیسی کے حامی ہیں اور سبھی ان کے تعزیتی اجلاس میں شامل ہونا چاہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ 23 مئی کو ان کی تدفین کا فیصلہ کیا گیا۔ ابراہیم رئیسی کی میت منگل کی سہ پہر ایران کے شہر قم پہنچی جہاں ان کی پہلی تعزیتی تقریب منعقد ہوئی۔ اس کے بعد شام کو ان کا جسد خاکی شمال مغربی شہر تبریز لے جایا گیا۔ آج یعنی بدھ کو صدر اور دیگر کی میتیں دارالحکومت تہران لائی گئیں، جہاں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے نماز جنازہ پڑھائی۔ اس کے بعد صدر کی میت کو ان کے آبائی شہر مشہد لے جایا جائے گا اور وہیں ان کی تدفین عمل میں آئے گی۔


اس درمیان محکمہ خارجہ کی اطلاع کے مطابق نائب صدر جگدیپ دھنکھڑ ابراہیم رئیسی کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے بدھ کی صبح تہران روانہ ہوئے۔ ان کے علاوہ پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر خارجہ امیر خان متقی کے ساتھ افغانستان سے طالبان وفد کی بھی شرکت متوقع ہے۔ ان کی تعزیتی تقریب میں فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ہانیہ نے بھی شرکت کی ہے۔

قابل ذکر ہے کہ ابراہیم رئیسی کے انتقال کے بعد ایران میں 5 روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا تھا۔ سوگ کی تقریب کے دوران ایران کے اسکول اور دفاتر بند کر دیے گئے۔ ابراہیم رئیسی کی تعزیتی تقریب میں شرکت کے لیے تہران کی سڑکوں پر عوام کا جم غفیر دیکھنے کو مل رہا ہے اور سبھی ماتم کناں ہیں۔

بہرحال، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سیاسیات کے اسکالر حسین اسلام کا کہنا ہے کہ ایران کے بزرگ افراد کے آخری سفر میں اس طرح کی بھیڑ اور میت کو ملک کے مختلف شہروں میں لے جانا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ 2020 میں تقریباً 10 لاکھ افراد انقلابی گارڈ جنرل قاسم سلیمانی کے جلوس میں شریک ہوئے تھے جو بغداد میں امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے۔ اگر تعزیتی تقریب ایک جگہ پر ہو تو تمام لوگوں کے لیے اس میں شرکت کرنا مشکل ہو جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ میت کو ملک کے مختلف شہروں میں لے جایا جا رہا ہے تاکہ ہر کوئی تعزیتی تقریب میں شرکت کر سکے۔


63 سالہ ابراہیم رئیسی کا ذکر ایران کے سپریم لیڈر کے ممکنہ جانشین کے طور پر کیا جا رہا تھا۔ 85 سالہ سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کئی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ ابراہیم رئیسی ان کے قریبی تھے۔ انہوں نے شریعت کے خلاف ہونے والے بہت سے مظاہروں کو سختی سے دبایا۔ وہ ایرانی عوام کے لیے ایک مضبوط لیڈر تھے۔ ان کے بعد صدارتی امیدوار کے طور پر ابھی تک کوئی نام سامنے نہیں آیا ہے۔ ملک میں 28 جون کو صدارتی انتخابات کا اعلان کیا گیا ہے اور اس وقت تک حکومت کا کام کاج نائب صدر محمد مخبر کے ذمے ہے۔ ابراہیم رئیسی کے انتقال کے بعد ہندوستان میں بھی ایک دن کے سوگ کا اعلان کیا گیا اور ان کی موت کی خبر کے فوراً بعد وزیراعظم نریندر مودی نے تعزیت کا اظہار بھی کیا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔