ونیش پھوگاٹ معاملے پر وزیر کھیل کی شرمناک وضاحت... سراج نقوی
بھلے ہی پھوگاٹ کو پیرس اولمپک میں بھیج دیا گیا ہو اور انھیں کچھ سہولیات بھی فراہم کر دی گئی ہوں، لیکن اس کے باوجود انھیں کمزور کرنے کے کئی ایسے ہتھکنڈے بھی اپنائے گئے جن پر اب سوال اٹھ رہے ہیں۔
جس ونیش پھوگاٹ نے جاپان کی پہلوان کو پیرس اولمپک کے سیمی فائنل کشتی مقابلے میں شکست فاش دے کر تمام شائقین کو حیرت زدہ کر دیا تھا، اور جس کے گولڈ میڈل جیتنے کی دعائیں پورا ملک کر رہا تھا، اس کی قابلِ فخر جیت پر نہ جانے کیوں حکومت اور اس کے حاشیہ بردار میڈیا نے اس وقت تک شرمناک خاموشی اختیار کیے رکھی جب تک کہ پھوگاٹ کو صرف 100 گرام وزن زیادہ ہونے کے بہانے اولمپک مقابلوں سے باہر نہیں کر دیا گیا۔ پھوگاٹ کشتی مقابلوں کے فائنل میں پہنچنے والی پہلی ہندوستانی خاتون پہلوان تھیں۔ ان کے کارنامے پر ہر ہندوستانی کا سر فخر سے بلند ہو جانا چاہیے تھا۔ لیکن کم ظرف سیاست دانوں اور برسر اقتدار ٹولے میں اس جیت پر تقریباً خاموشی ہی چھائی رہی۔ وزیر اعظم نے بھی پھوگاٹ کی اس حصولیابی پر کوئی پوسٹ ڈالنے میں بھی نہ جانے کس لیے دلچسپی نہیں دکھائی۔ حکومت کے کسی نمائندے کا بھی اس شاندار جیت پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ بلکہ اس کے برعکس پھوگاٹ کی جیت کو ایک کم ظرف فلمی اداکارہ نے مودی کی قیادت سے جوڑنے کی کوشش کی۔
اس اداکارہ کا نام لینے سے جان بوجھ کر گریز اس لیے کیا گیا ہے کہ شہرت کے بھوکے ایسے کم ظرف لوگ اسے بھی اپنی کامیابی تصور کر لیتے ہیں۔ بہرحال پھوگاٹ کی جیت پر خاموش رہنے والے وزیر اعظم مودی نے اپنی خاموشی پھوگاٹ کو نااہل قرار دیے جانے کے بعد توڑی اور انھیں ”چیمپئنوں کا چیمپئن“ بتا کر انھیں دلاسہ دینے کی بھی کوشش کی۔ لیکن اس معاملے کا سب سے شرمناک پہلو یہ ہے کہ جب ونیش پھوگاٹ کو فائنل کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا اور اس پر نہ صرف ہندوستان کے کھیل شائقین بلکہ پیرس اولمپک میں موجود کئی غیر ملکی پہلوانوں نے بھی دکھ جتا یا،اور ہندوستان کی اپوزیشن پارٹیوں نے حکومت کے رویے کو اس معاملے میں نشانہ بنایا تو وزیر کھیل نے پھوگاٹ کو نااہل قرار دیے جانے کے چند گھنٹے بعد ’چور کی داڑھی میں تنکا‘ کے مترادف عمل کرتے ہوئے لوک سبھا میں دیے گئے بیان میں اس بات کی ڈینگ ہانکی کہ ان کی حکومت نے ونیش پھوگاٹ کو کیا کیا سہولیات فراہم کیں، اور ان پر اولمپک میں شرکت کے لیے کتنی رقم خرچ کی گئی۔ وزیر کھیل منسکھ منڈاویا نے لوک سبھا میں بتایا کہ پھوگاٹ کو پیرس اولمپک میں شرکت کے لیے مجموعی طور پر 70 لاکھ 45 ہزار 775 روپئے کی مالی مدد فراہم کی گئی۔ تقریباً ساڑھے چھ منٹ کی اپنی تقریر میں منڈاویا کی گفتگو کا بڑا حصہ ان اخراجات کی تفصیل سے متعلق تھا جبکہ پھوگاٹ کو نااہل قرار دیے جانے کے بعد ہماری حکومت اس سلسلے میں کیا قدم اٹھا رہی ہے اس پر ان کی وضاحت مختصر تھی۔ یعنی منڈاویا کے نزدیک یہ بات کم اہم تھی کہ ملک کی ایک باصلاحیت پہلوان کو صرف 100 گرام وزن زیادہ ہونے کے بہانے مقابلے کے لیے نااہل ٹھہرا دیا گیا، اور ان کا زور پھوگاٹ پر کیے گئے سرکاری ’احسانات‘ پر زیادہ تھا۔
ایک جمہوری حکومت کے وزیر کا یہ رویہ اس لیے قابل اعتراض اور شرمناک ہے کہ حکومت نے پھوگاٹ کے لیے جو کچھ کیا وہ ان پر احسان نہیں تھا، اور نہ منڈاویا یا حکومت کے کسی ذمہ دار نے اپنی جیبِ خاص سے اس مد میں کوئی رقم خرچ کی تھی۔ منڈاویا جب پھوگاٹ پر خرچ کی گئی سرکاری رقم کی تفصیل بتا رہے تھے تو انھیں یہ بھی بتانا چاہیے تھا کہ وہ کشتی فیڈریشن جو فی الحال تحلیل ہے اس کے کچھ اہلکار کس بناء یا ضرورت کے تحت عیش کرنے کے لیے کھلاڑیوں کے ساتھ پیرس بھیجے گئے؟ حالانکہ ان سرکاری مداریوں کے اخراجات کی تفصیل وزیر کھیل نے لوک سبھا کے سامنے نہیں رکھی، لیکن ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اس مد میں بھی خطبیر رقم خرچ کی گئی۔ جبکہ معطلی کے سبب یہ ایک درجن افراد پیرس بھیجے جانے کے حقدار ہی نہیں تھے۔ کیا یہ شرمناک بات نہیں کہ جس حکومت میں ایک رکن پارلیمنٹ مختلف مدوں کے تحت ہر ماہ خطیر قم حاصل کرتا اور دنیا بھر کی سہولیات کا حقدار ہو اس ملک کی ایک مایہ ناز خاتون پہلوان پر خرچ کی گئی رقم کو وزیر کھیل نے لوک سبھا میں اس طرح پیش کیا کہ جیسے یہ پھوگاٹ یا ملک پر کوئی احسان ہو۔لیکن نااہل و معطل شدہ کشتی فیڈریشن کے افسران پر خرچ کی گئی رقم پر کچھ نہیں کہا گیا۔
دراصل وزیر کھیل کی یہ وضاحت اس لیے کئی سوال کھڑے کرتی ہے کہ بھلے ہی پھوگاٹ کو پیرس اولمپک میں بھیج دیا گیا ہو اور انھیں کچھ سہولیات بھی فراہم کر دی گئی ہوں، لیکن اس کے باوجود انھیں کمزور کرنے کے کئی ایسے ہتھکنڈے بھی اپنائے گئے کہ جن پر اب سوال اٹھ رہے ہیں۔ ان سوالوں کا جواب کسی اور کو نہیں بلکہ وزارت کھیل یا متعلق اداروں کو ہی دینا ہوگا کہ جن کے نتیجے میں صورتحال یہ ہوئی کہ پھوگاٹ کو نااہلی کی سزا بھگتنی پڑی۔انھیں جس ناکردہ گناہ کے لیے قصوروار ٹھہرایا گیا اس کی ذمہ داری طے کرنا حکومت کا فرض ہے۔یہ بات غیر اہم ہے کہ فوگاٹ پر کتنی رقم حکومت نے خرچ کی،بلکہ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ کس بنیاد پر انھیں مجبور کیا گیا کہ وہ 53 کلو کے زمرے کی بجائے 50 کلو کے زمرے کے کشتی مقابلے میں ہی شریک ہو سکتی ہیں۔
آیئے پہلے اس بات پر نظر ڈال لیں کہ کس سبب سے پھوگاٹ کو نا اہلی سزا بھگتنی پڑی ہے۔اوّل تو یہی بات حیران کن ہے کہ پھوگاٹ کو زیادہ وزن کی بناء پر فائنل مقابلے سے ٹھیک پہلے نا اہل قرار دیا گیا۔ پھوگاٹ عام طور 53 کلو کے زمرے میں مقابلے کے لیے اترتی رہی ہیں،لیکن پیرس اولمپک سے قبل انھیں 50 کلو وزن کے زمرے میں شرکت کے لیے کہا گیا،جس کے سبب انھیں اپنا وزن کم کرنا پڑا۔
ونیش چاہتی تھیں کہ وہ 53 کلو کے زمرے میں شرکت کریں لیکن اس زمرے میں کسی اور کو لا کھڑا کیا گیا۔ ونیش کے سامنے سوا اس کے کوئی متبادل نہیں تھا کہ وہ 50 کلو کے زمرے میں ہی شرکت پر راضی ہو جائیں۔ حالانکہ اس کے لیے انھیں بہت زیادہ محنت و تیاری کرنی پڑی۔ یہ بات بھی حیران کن ہے اور سپریم کورٹ کے سئینر وکیل پرشانت بھوشن نے اس پر سوال بھی اٹھایا ہے کہ سیمی فائنل میں جیت کے بعد پھوگاٹ کا وزن اچانک کیسے بڑھ گیا؟ الزام ہے کہ ان کی مددگار ٹیم نے پھوگاٹ کو جو او آر ایس پینے کے لیے دیا اس کے سبب ایسا ہوا کہ ان کا وزن اچانک بڑھ گیا اور جسے کم کرنے کے لیے وہ رات بھر کسرت بھی کرتی رہیں۔ اس کے لیے پھوگاٹ نے بھرپور کوشش کی لیکن اس کے باوجود ان کا وزن مقررہ حد سے 100 گرام زیادہ ہونے کے سبب انھیں نا اہل قرار دے دیا گیا۔
پھوگاٹ کی نا اہلی کسی سازش کا نتیجہ تھی یا نہیں یہ جانچ کا موضوع ہے، لیکن شرمناک بات یہ ہے کہ کچھ اندھ بھکتوں نے سوشل میڈیا میں اس پر جس مسرّت کا اظہار کیا اس نے واضح کر دیا کہ ہمارے لیے اپنے قومی ہیروز کی کیا قدر و قیمت ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پھوگاٹ کے معاملے پر پورا ملک سراپا احتجاج بن جاتا اور اولمپک کے ذمہ داروں سے اس معاملے پر از سر نو غور کرنے کا مطالبہ کرتا لیکن کچھ کم ظرفوں کا پھوگاٹ کی نااہلی پر خوش ہونا ثابت کرتا ہے کہ دیش بھکتی کے دعویداروں میں کچھ ملک دشمن افراد بھی شامل ہیں۔ حالانکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پھوگاٹ کے ساتھ پیرس میں جو نا انصافی ہوئی اس پر پورا ملک غم زدہ ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔