مودی حکومت کی ’ہر گھر ترنگا مہم‘ پر کانگریس نے یاد دلائی ’ترنگا اور آر ایس ایس‘ کی تاریخ
جئے رام رمیش نے الزام عائد کیا ہے کہ نان بایولوجیکل وزیر اعظم اس قومی علامت (ترنگا) کو ہتھیانے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ ان کی پارٹی کی کوئی تاریخ اور علامت نہیں ہے جسے ہندوستان اپنا مان سکے۔
مرکز کی مودی حکومت نے یومِ آزادی کے پیش نظر ایک بار پھر ’ہر گھر ترنگا مہم‘ چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ کانگریس نے اس معاملے میں وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی کو آر ایس ایس کی ترنگا سے متعلق تاریخ یاد دلائی ہے۔ پارٹی جنرل سکریٹری جئے رام رمیش نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا ہے کہ ’’نان بایولوجیکل وزیر اعظم اس قومی علامت کو ہتھیانے کی کوشش کر رہے ہیں (جسے ان کے نظریاتی کنبہ نے طویل مدت سے نامنظور کیا ہے) کیونکہ ان کی پارٹی کی کوئی تاریخ اور علامت نہیں ہے جسے ہندوستان اپنا مان سکے۔ خاص طور سے اس دن جب ہندوستان اور انڈین نیشنل کانگریس ’بھارت چھوڑو تحریک‘ کی سالگرہ منا سکتے ہیں، جس میں آر ایس ایس نے حصہ لینے سے انکار کر دیا تھا۔‘‘
جئے رام رمیش نے وزیر اعظم اور آر ایس ایس کو کٹہرے میں کھڑا کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’نان بایولوجیکل وزیر اعظم نے ایک اور ہر گھر ترنگا مہم شروع کی ہے۔ ترنگے کے ساتھ آر ایس ایس کے رشتوں کی مختصر تاریخ دیکھیے۔‘‘ اس کے بعد انھوں نے 4 نکات میں آر ایس ایس اور ترنگا کی تاریخ بیان کی ہے، جو اس طرح ہے...
آر ایس ایس کے دوسرے چیف ایم ایس گولوالکر نے اپنی کتاب ’بنچ آف تھاؤٹس‘ میں کانگریس کے ترنگے کو قومی پرچم کی شکل میں اپنانے کے فیصلے کی تنقید کی تھی، اسے ’فرقہ وارانہ‘ اور ’صرف بہکنے اور نقل کرنے کا معاملہ‘ قرار دیا تھا۔
آر ایس ایس کے ترجمان ’آرگنائزر‘ نے 1947 میں لکھا تھا کہ ترنگے کو ’ہندوؤں کے ذریعہ کبھی اپنایا نہیں جائے گا اور نہ ہی اس کا احترام کیا جائے گا۔ لفظ تین اپنے آپ میں ایک برائی ہے، اور تین رنگوں والا پرچم یقینی طور سے بہت برا نفسیاتی اثر پیدا کرے گا اور ملک کے لیے مضر ہے۔‘‘
2015 میں آر ایس ایس نے کہا کہ ’’قومی پرچم پر بھگوا رنگ ہی واحد رنگ ہونا چاہیے کیونکہ دوسرے رنگ فرقہ وارانہ نظریات کی نمائندگی کرتے ہیں۔‘‘
آر ایس ایس نے 2001 تک اپنے ہیڈکوارٹر میں مستقل طور سے ترنگا نہیں لہرایا اور جب تین نوجوانوں نے اس کے احاطہ میں پرچم لہرانے کی کوشش کی تب زبردست کرنے کا ’جرم‘ بتا کر ان پر معاملہ درج کیا گیا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔