انتخابی نتائج سے مودی حکومت کی ساکھ کو نقصان، خوف اور اثر میں کمی...یوگیندر یادو

امید کی جانی چاہئے کہ پارلیمنٹ میں بحث ہو گی اور عجلت میں قانون پاس کرنے کا رواج بند ہو جائے گا۔ یہ بھی کہ پارلیمانی اپوزیشن مسائل کو زیادہ موثر انداز میں اٹھائے گی اور متبادل تجاویز پیش کرے گی

پی ایم مودی
پی ایم مودی
user

یوگیندر یادو

آخر جمہوریت میں عوام ہی نظام پر غالب آئے۔ انتخابی نتائج والے روز صبح کے وقت میں نے کہا تھا کہ اگر بی جے پی کو اس کے پچھلی تعداد یعنی 303 سے ایک سیٹ بھی کم ملتی ہے تو اسے حکومت کی شکست تصور کیا جائے گا۔ اگر حکمراں پارٹی اکثریت کے نشان یعنی 272 سے نیچے رک جاتی ہے تو اسے بی جے پی کی سیاسی شکست سمجھا جانا چاہئے اور اگر بی جے پی کی تعداد 250 سے نیچے آ جاتی ہے تو اسے وزیر اعظم نریندر مودی کی ذاتی شکست سمجھنا چاہئے۔ آخر کار بی جے پی محض 240 تک محدود رہ گئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ الیکشن کا نتیجہ پچھلی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد، بی جے پی کی سیاسی شکست اور نریندر مودی کی ذاتی شکست ہے۔

بی جے پی کے ووٹوں میں بے شک صرف ایک فیصد کی کمی آئی ہے اور اس نے ساحلی ریاستوں بالخصوص اوڈیشہ، آندھرا پردیش، تلنگانہ اور کیرالہ میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے، لیکن اس الیکشن کے نتائج کو صرف اعداد و شمار سے نہیں سمجھا جا سکتا۔ یہ ایک ہموار میدان میں دو ٹیموں کے درمیان انتخابی دوڑ نہیں تھی۔ حکمران پارٹی آرام دہ اور پرسکون جوتے پہن کر اسٹیڈیم میں دوڑ رہی تھی تو اپوزیشن کانٹے دار جھاڑیوں اور پتھروں کو عبور کرتے ہوئے پہاڑوں پر چڑھنے پر مجبور تھی۔ ایسے مشکل حالات میں بھی اگر اپوزیشن حکمران جماعت سے 63 نشستیں چھین کر اکثریت کے نشان سے نیچے لے آتی ہے تو اسے جمہوریت کا کرشمہ ہی کہا جائے گا۔ اس کا کریڈٹ پارٹیوں سے زیادہ عوام کو جاتا ہے۔


اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستانی عوام نے ایک بار پھر حکومت کے غرور کو خاک میں ملا دیا ہے اور آمریت کی طرف بڑھتے ہوئے قدم ایک بار پھر رک گئے ہیں۔ سوال صرف یہ ہے کہ اس مینڈیٹ سے کہاں اور کتنی امید رکھی جائے۔ بہتر ہو گا کہ ہم ضرورت سے زیادہ جوش و خروش سے گریز کریں۔ یہ بات یقینی ہے کہ اس انتخابی نتیجے نے جمہوری امکانات کے دروازے کھول دیے ہیں۔ اس نظام کی چار بڑی سیڑھیوں میں دروازے سے اندر داخل ہونے کے بعد لوگ کتنے قدم چل پائیں گے، یہ فی الحال کہنا مشکل ہے۔

چوتھا اور سب سے بڑا قدم حکومتی پالیسی کا ہے، جس تک پہنچنے کی توقع سب سے کم ہے لیکن سب سے زیادہ زیر بحث ہے۔ سب قیاس آرائیاں کر رہے ہیں کہ وزیر اعظم کے اتحادیوں پر انحصار کی وجہ سے ان کے کام کرنے کے انداز میں کچھ تبدیلی آئے گی۔ وزیراعظم کی جانب سے اپنی افتتاحی تقریر میں اتفاق رائے، مذہبی مساوات اور آئین پر یقین جیسے الفاظ کے استعمال نے اس قیاس آرائی کو مزید تیز کر دیا ہے، لیکن میں اس پر یقین نہیں کرتا۔


نریندر مودی کو بیک فٹ پر کھیلنے کی کوئی مشق نہیں ہے۔ اس کے برعکس یہ ممکن ہے کہ وزیراعظم کمزور حکومت کی شبیہ کو توڑنے کے لیے کچھ جارحانہ اقدامات کریں۔ یوں بھی چندرابابو نائیڈو اور نتیش کمار سے نظریاتی وابستگی یا سیاسی ہمت کی توقع کرنا زیادتی ہے۔ ہاں، یہ توقع ضرور ہے کہ بی جے پی کے اتحادی وفاقی ڈھانچے کو نقصان پہنچانے والے فیصلے یا اقلیتوں کے حقوق کو براہ راست چھیننے والے کسی بڑے قدم پر بریک لگا سکتے ہیں۔

تیسرا مرحلہ اداروں کے وقار کا ہے جہاں کچھ زیادہ کی توقع کی جا سکتی ہے۔ انتظامیہ اور سی بی آئی یا ای ڈی جیسے اداروں میں بہتری کی امید رکھنا فضول ہوگا کیونکہ یہ سب براہ راست حکومت کے انگوٹھے کے نیچے ہیں۔ سنٹرل ویجلنس کمیشن، انفارمیشن کمیشن اور الیکشن کمیشن جیسے آئینی خود مختاری والے اداروں سے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ حکومت کی حمایت کرتے ہوئے اب کچھ شرم کریں گے۔ عدلیہ سے یہ توقع کی جانی چاہیے کہ کم آئین و قانون کی دھندلی سی پڑی عبارت کم از کم کچھ ججوں کو نظر آنے لگے گی۔


شہریت قانون میں ترمیم، الیکشن کمشنروں کی تقرری کو چیلنج اور الیکٹورل بانڈ گھوٹالہ کی عدالتی تحقیقات جیسے معاملات میں امیدیں پروان چڑھتی ہیں یا نہیں یہ آنے والے چند مہینوں میں معلوم ہو جائے گا۔ ساتھ ہی یہ بھی امید کی جانی چاہئے کہ مین اسٹریم میڈیا کو بھی اس الیکشن میں بی جے پی کے ترجمان کے طور پر کھڑے ہو کر شرمندگی کا سامنا کرنے کے بعد کچھ عقل آئی ہوگی۔ اس بات کی زیادہ امید نہیں کہ ٹی وی اینکرز اور اخبارات حکومت کی خوشامد بند کر دیں گے لیکن کم از کم یہ ممکن ہے کہ میڈیا اپوزیشن جماعتوں، لیڈروں اور مظاہرین پر بھیڑیوں کی طرح حملہ کرنے سے گریز کرے گا۔

دوسرے مرحلے پر پارلیمنٹ آتی ہے، جس میں کچھ اور تبدیلیوں کی امید ہے۔ لوک سبھا میں تعداد کے عدم توازن کے بہت کم ہونے کے بعد توقع کی جانی چاہئے کہ پارلیمنٹ میں بحث ہوگی، بغیر بحث کے عجلت میں قانون پاس کرنے کا رواج بند ہو جائے گا، اگر ارکان پارلیمنٹ کو پارلیمنٹ میں بولنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، تو ارکان پارلیمنٹ باہر اپنی آواز اٹھائیں گے۔ یہ بھی توقع کی جا سکتی ہے کہ گزشتہ دس سالوں کے مقابلے میں پارلیمانی اپوزیشن مسائل کو زیادہ مؤثر طریقے سے اٹھائے گی، متبادل تجاویز پیش کرے گی اور آئندہ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو شکست دینے کے انتظامات بھی کرے گی۔


پہلی اور مضبوط ترین پوزیشن پر عوامی تحریک اور مزاحمت ہوتی ہے۔ پچھلے دس سالوں میں مودی حکومت کے خلاف اپوزیشن کا کردار پارلیمنٹ سے زیادہ سڑکوں پر ادا کیا گیا ہے۔ اور کچھ بھی ہو، ایک بات طے ہے کہ اس انتخابی نتیجے سے مودی حکومت کی ساتھ کو نقصان پہنچا ہے اور اس کے خوف میں گراوٹ آئی ہے۔ اس لیے یہ بات طے ہے کہ کسانوں کی بات ہو یا بے روزگار نوجوانوں کی، دلت برادری کی فکر ہو یا خواتین کی، سڑکوں پر عام لوگوں کی زندگیوں سے جڑے مسائل کو اٹھانے کا عمل پہلے سے زیادہ مضبوط ہوگا۔ اگر پارلیمانی اپوزیشن اور سڑکوں پر جاری احتجاج کے درمیان ہم آہنگی ہو تو یہ بھی ممکن ہے کہ یا تو حکومت کو کو عوام کے سامنے جھکنا پڑے گا یا پھر پانچ سال سے پہلے عوام کے سامنے پیش ہونا پڑے گا۔

(مضمون نگار یوگیندر یادو سوراج انڈیا کے صدر، ماہر سماجیات اور انتخابی تجزیہ کار ہیں)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔