مودی کو موہن بھاگوت کی کھری کھری...سہیل انجم

بھاگوت نے نے انتخابی مہم کے دوران اشتعال انگیزی اور ایک دوسرے کے خلاف معیار سے گری ہوئی بیان بازی پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ انھوں نے بجا طور پر کہا کہ الیکشن مقابلہ ہے جنگ نہیں

<div class="paragraphs"><p>تصویر بشکریہ سوشل میڈیا</p></div>

تصویر بشکریہ سوشل میڈیا

user

سہیل انجم

’مودی ایک اکیلا سب پر بھاری ہے‘

’ہم نے دشمن کے گھر میں گھس کر مارا‘

’مودی نہ کھائے گا نہ کھانے دے گا‘

’میں تمام کرپٹ لوگوں کو جیل بھیجوں گا۔ یہ مودی کی گارنٹی ہے‘

کیا ان جملوں سے ایسا نہیں لگتا کہ ان کو ادا کرنے والے نریندر مودی کے اندر غرور و تکبر آ گیا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ کیا اس قسم کے ڈائیلاگ بولتے۔ اس بات کا احساس صرف عوام کو نہیں ہے بلکہ بی جے پی کی نظریاتی سرپرست تنظیم آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کو بھی ہے۔ جبھی تو انھوں نے وزیر اعظم مودی کو نصیحت کر ڈالی۔ حالانکہ انھوں نے ان کا نام تو نہیں لیا لیکن دنیا جانتی ہے کہ ان کا مخاطب کون تھا۔

جب 2014 میں نریندر مودی منتخب ہو کر وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہوئے تھے تو انھوں نے کہا تھا کہ انھیں پردھان منتری نہ کہا جائے بلکہ پردھان سیوک کہا جائے۔ اس وقت عوام کو ان کے لہجے میں بڑی مٹھاس محسوس ہوئی تھی اور وہ یہ سمجھنے لگے تھے کہ واقعی ان کو ایک بہت بڑا سیوک یا خادم مل گیا ہے۔ ایک ایسا خادم جو ان کے تمام دکھوں کو دور کر دے گا، ان کے تمام مسائل کو حل کر دے گا۔ لیکن دس سال کی مدت میں ہی قلعی اتر گئی اور سوائے اندھ بھکتوں کے اب کوئی بھی ان کی باتوں پر یقین نہیں کرتا۔ یہاں تک کہ بی جے پی کے بہت سے لیڈر اور کارکن بھی نہیں اور آر ایس ایس اور اس کے لیڈر اور کارکن بھی نہیں۔

آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے انتخابی نتائج آنے کے بعد پہلی بار اپنے موقف کا اظہار کیا اور نہ صرف وزیر اعظم مودی کو غرور و تکبر چھوڑنے کی نصیحت کر ڈالی بلکہ منی پور میں ایک سال سے جاری تشدد پر قابو نہ پانے میں حکومت پر تنقید بھی کی۔ ان کا یہ کہنا بہت معنیٰ رکھتا ہے کہ سچے سیوک (حقیقی خادم) کے اندر غرور نہیں ہوتا۔ وہ دوسروں کو تکلیف پہنچائے بغیر اپنا کام کرتا ہے۔ اس کا ڈھنڈورا نہیں پیٹتا۔ وہ یہ نہیں کہتا کہ میں نے یہ کیا میں نے وہ کیا۔ جس میں یہ خوبیاں ہوتی ہیں وہی خود کو سیوک کہلانے کا حق رکھتا ہے۔


انھوں نے انتخابی مہم کے دوران اشتعال انگیزی اور ایک دوسرے کے خلاف معیار سے گری ہوئی بیان بازی پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ انھوں نے بجا طور پر کہا کہ الیکشن مقابلہ ہے جنگ نہیں۔ اس میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے کا جذبہ ہوتا ہے لیکن دشمنی نہیں ہونی چاہیے۔ انھوں نے حزب اقتدار اور حزب اختلاف کو برابری کا درجہ دیتے ہوئے کہا کہ جمہوری نظام میں دو فریق ہوتے ہیں۔ اسی طرح پارلیمنٹ میں ایک حکومت کا فریق ہے اور دوسرا اپوزیشن کا فریق ہے۔ جس طرح سکے کے دو پہلو ہوتے ہیں اسی طرح اس کے بھی دو پہلو ہیں۔

انھوں نے انتخابی مہم میں معیار سے گری ہوئی بیان بازی کے سلسلے میں جو کہا ہے اس کا اشارہ بھی بی جے پی اور بالخصوص مودی کی طرف ہے۔ حالانکہ انھوں نے دونوں فریقوں پر تنقید کی ہے لیکن اس کی زیادہ زد حکومتی فریق پر پڑتی ہے۔ ان کے بقول اس طرح کے واقعات سامنے آئے ہیں اور ایک فریق دوسرے پر حملہ کر رہا ہے، اس کے بیانات سے عوام منقسم ہو جائیں گے اور ان میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت کا زہر بھر جائے گا۔ یہ بات تشویش ناک ہے۔ ان کے بقول انتخابی جوش و خروش سے آگے بڑھ کر ملک کو درپیش چیلنجوں پر توجہ مبذول کرنا ہوگی۔

واضح رہے کہ وزیر اعظم مودی کی جانب سے کانگریس کے انتخابی منشور کو مسلم لیگ کا منشور بتایا گیا اور کہا گیا کہ اس پر مسلم لیگ کی چھاپ ہے۔ انھوں نے سابق وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کے ایک پرانے بیان کو سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کیا اور کہا کہ کانگریس ہندوؤں کی دولت چھین کر مسلمانوں کو دے دے گی۔ ان لوگوں کو دے دے گی جو گھس پیٹھیے ہیں اور جو زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’کانگریس کی نظر ہندو ماؤں بہنوں کے منگل سوتر پر ہے۔ وہ آپ لوگوں کے دو میں سے ایک بھینس کھول لے جائے گی۔ دو سائیکلوں میں سے ایک سائیکل اٹھا لے جائے گی۔ آپ کے گھروں میں لگی ٹونٹی کھول لے جائے گی۔ اگر دو گھر ہے تو ایک گھر چھین لے گی۔‘ ظاہر ہے یہ بیانات عوام میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت پھیلانے والے ہی ہیں۔

دراصل موہن بھاگوت کے یہ بیانات اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ بی جے پی اور آر ایس ایس میں اختلافات پیدا ہو رہے ہیں۔ دونوں کے باہمی معاملات ٹھیک نہیں ہیں۔ اس حوالے سے بی جے پی کے صدر جے پی نڈا کا یہ بیان کافی وائرل ہوا تھا کہ اب بی جے پی کافی طاقتور ہو گئی ہے اور اسے آر ایس ایس کی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ اس بیان کو دونوں میں اختلافات کے طور پر دیکھا گیا۔ آر ایس ایس میں اس بیان کو پسند نہیں کیا گیا۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ آر ایس ایس آگے چل کر کوئی نہ کوئی قدم اٹھائے گی۔ لہٰذا مودی کے سامنے آر ایس ایس اور بی جے پی میں تال میل بٹھانا بھی ایک چیلنج ہو گا۔ یاد رہے کہ جے پی نڈا کو مرکزی کابینہ میں شامل کر لیا گیا ہے۔ اب ان کی جگہ پر کسی ایسے لیڈر کو صدر منتخب کیا جائے گا، جس کے دونوں حلقوں سے اچھے روابط ہوں۔ یہ دیکھنا دلچسپ ہو گا کہ وہ کون ہو سکتا ہے اور وہ اس چیلنج پر کیسے قابو پا سکتا ہے۔


مبصرین نے بھی اس بیان بازی کو بی جے پی اور آر ایس ایس کے درمیان بڑھتے اختلافات کی شکل میں دیکھنے کی کوشش کی تھی۔ ان کا خیال ہے کہ ابھی اس قسم کے بیانات اور آئیں گے۔ چوں کہ بی جے پی کو انتخابات میں اکثریت نہیں ملی تو اب بی جے پی اور آر ایس ایس کے رہنما ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرائیں گے۔ بی جے پی کے ایودھیا کے امیدوار نے کہا تھا کہ اگر بی جے پی کو 400 سیٹیں مل جاتی ہیں تو آئین بدل دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ جے پی نڈا نے آر ایس ایس کے بارے میں بیان دیا تھا۔ ان سب پر سوالات اٹھائے جائیں گے۔ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق شکست سے بی جے پی اور آر ایس ایس کو جو چوٹ پہنچی ہے ان کا یہ بیان اس کی ٹیس کو کم کرنے کی کوشش ہے۔ اسی کے ساتھ موہن بھاگوت وزیر اعظم مودی کو یہ پیغام دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ بڑا بڑا ہی ہوتا ہے۔

بعض مبصرین کا یہ بھی خیال ہے کہ انتخابی مہم کے دوران بی جے پی کی جانب سے آر ایس ایس کو وہ توجہ نہیں ملی جو ملنی چاہیے تھی اسی لیے ایسی باتیں اٹھ رہی ہیں اور اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بی جے پی، آر ایس ایس کو نظرانداز نہیں کر پائے گی۔ پولنگ کے دوران کم ٹرن آؤٹ کے حوالے سے لوگوں کا خیال تھا کہ آر ایس ایس کے ورکرز نے اس الیکشن میں وہ دلچسپی نہیں دکھائی جو پہلے دکھاتے رہے ہیں اور بی جے پی کی کم سیٹیں آنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔

بی جے پی اور آر ایس ایس کے درمیان اختلافات کا اشارہ آر ایس ایس کے انگریزی ترجمان ’آرگنائزر‘ سے ملتا ہے۔ اس کے تازہ شمارے میں لکھا گیا ہے کہ بی جے پی کے رہنماؤں اور کارکنوں نے انتخابات میں مدد کے لیے آر ایس ایس سے رابطہ قائم نہیں کیا جس کی وجہ سے خلاف توقع نتائج آئے ہیں۔ ترجمان کے مطابق بی جے پی کے رہنماؤں اور کارکنوں میں ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی تھی۔ وہ سوشل میڈیا پر سرگرم رہے، زمین پر نہیں اترے۔ یہ مضمون آر ایس ایس کے ایک فل ٹائم ممبر رتن شاردا نے لکھا ہے۔ ان کے مطابق بی جے پی کے رہنما جھوٹی انا کو ہی حقیقی سیاست سمجھتے ہیں۔ آر ایس ایس، بی جے پی کی فیلڈ فورس نہیں ہے۔ اس کے اپنے کارکن ہیں جن پر انتخابی مہم چلانے اور عوام تک پہنچنے کی ذمے داری ہے۔ انھوں نے شکست کے لیے بی جے پی کو ذمہ دار ٹھہرایا اور کہا کہ انتخابی نتائج نے بی جے پی کارکنوں کی ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کو بے نقاب کر دیا۔ وہ اس خوش فہمی میں رہے کہ مودی کے نام پر جیت جائیں گے۔ انھوں نے عوام میں جا کر ان کی باتیں نہیں سنیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ سوشل میڈیا اور سیلفی میں یقین رکھنے والے نئی نسل کے کارکنوں کی سرگرمیوں نے بی جے پی کے امکانات پر منفی اثر ڈالا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔