’اتر پردیش حکومت دینی مدارس سے متعلق اپنا حکم نامہ واپس لے‘، جمعیۃ علماء ہند کا مطالبہ

جمعیۃعلماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے اتر پردیش حکومت کے چیف سکریٹری کو مکتوب لکھا جس میں کہا گیا ہے کہ مدارس کو ملک کے آئین نے تحفظ فراہم کیا ہے، اس کی شناخت مٹانے کی کوشش نہ کی جائے۔

<div class="paragraphs"><p>مولانا محمود مدنی / ٹوئٹر / ویڈیو گریب</p></div>

مولانا محمود مدنی / ٹوئٹر / ویڈیو گریب

user

پریس ریلیز

نئی دہلی: جمعیۃ علماء ہند نے دینی مدارس کے سلسلے میں اتر پردیش حکومت کے حالیہ حکم نامے کو غیر آئینی اور اقلیتوں کے حق کو ضبط کرنے والا عمل بتایا ہے۔ ادارہ مطالبہ کیا ہے کہ بلا تاخیر اس کو واپس لیا جائے۔ اس سلسلے میں جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے اتر پردیش حکومت کے ایڈیشنل چیف سکریٹری، نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس، ایڈیشنل چیف سکریٹری/ پرنسپل سکریٹری، اقلیتی فلاح و بہبود اور وقف یوپی، اور ڈائرکٹر اقلیتی فلاح و بہبود یوپی کو خط لکھ کر اس غیر آئینی اقدام سے باز رہنے کی اپیل کی ہے۔

واضح ہو کہ قومی کمیشن برائے تحفظ حقوق اطفال (NCPCR) کے خط و کتابت کی بنیاد پر یوپی حکومت نے 26 جون 2024 کو ہدایت جاری کی ہے کہ امداد یافتہ اور تسلیم شدہ مدارس میں داخل غیر مسلم طلبہ کو علیحدہ کیا جائے اور ان کا داخلہ سرکاری اسکولوں میں کیا جائے۔ اسی طرح غیر تسلیم شدہ مدارس کے تمام طلبہ کو جبراً رسمی تعلیم کے لیے سرکاری پرائمری اسکولوں میں داخل کرایا جائے۔ اس حکم نامے سے ریاست میں ہزاروں آزاد مدارس متاثر ہوں گے کیوںکہ اترپردیش وہ ریاست ہے جہاں بڑے بڑے آزاد مدارس ہیں، جن میں دارالعلوم دیوبند اور ندوۃ العلماء وغیرہ شامل ہیں۔


مولانا مدنی نے اپنے مکتوب میں واضح کیا ہے کہ اولاً این سی پی سی آر امداد یافتہ مدارس کے بچوں کو ان کے مذہب کی بنیاد پر علیحدہ کرنے کی ہدایت نہیں دے سکتا۔ یہ ملک کو مذہب کے نام پر بانٹنے والا عمل ہے۔ دوسری طرف یہ سوال اہم ہے کہ پورے ملک کو چھوڑ کر این سی پی سی آر نے اتر پردیش سرکار کو ہی کیوں ہدایت جاری کی؟ مولانا مدنی نے کہا کہ تعلیم کا انتخاب بچوں اور ان کے والدین کی مرضی کا معاملہ ہے، کہ وہ کس طرح کی تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ کوئی بھی ریاست شہریوں سے تعلیم کے انتخاب کا حق نہیں چھین سکتی۔

مولانا مدنی نے کہا کہ یہ حیرت انگیز ہے کہ این سی پی سی آر کے چیئرپرسن مدارس اسلامیہ کے سلسلے میں غیر معمولی دلچسپی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور اپنے دائرۂ اختیار سے تجاوز کر کے فیصلے سنا رہے ہیں۔ حالانکہ ان کو سمجھنا چاہیے کہ ان کا یہ عمل آئین ہند کے حصہ سوم کے تحت شہریوں کو دی گئی دستوری ضمانتوں کی خلاف ورزی پر مبنی ہے۔ دوسری طرف مدارس سے متعلق معاملہ معزز سپریم کورٹ کے سامنے زیر التوا ہے جہاں الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے مقابلے تفصیلی عبوری ہدایت جاری کی گئی ہے۔ اس لیے عدالت سے باہر جا کر کسی فیصلے سے گریز کیا جائے۔


صدر جمعیۃ علماء ہند نے کہا کہ دینی مدارس ہندوستانی معاشرے کے مختلف طبقات کو تعلیم یافتہ بنانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ مذکورہ بالا ہدایات مدارس کے مثبت کردار کو داغدار کرنے کی کوشش معلوم ہوتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ آئین ہند میں یہ ضمانت دی گئی ہے کہ مذہبی اور لسانی اقلیتیں اپنی پسند کے تعلیمی ادارے قائم کر سکتی ہیں اور ان کو اپنے طور پر چلا بھی سکتی ہیں۔ حکومت اتر پردیش کو یہ سمجھنا چاہیے کہ مدارس کی علاحدہ قانونی حیثیت اور شناخت ہے جیسا کہ رائٹ ٹو فری اینڈ کمپلسری ایجوکیشن ایکٹ، 2009 کے سیکشن 1(5) میں مدارس اسلامیہ کو مستثنیٰ قرار دے کر تسلیم کیا گیا ہے۔ لہٰذا جمعیۃ علماء ہند مطالبہ کرتی ہے کہ 26 جون 2024 کے حکومتی حکم نامے کو واپس لیا جائے اور 7 جون 2024 کو این سی پی سی آر کے مکتوب کو رد کیا جائے تاکہ مسلم کمیونٹی کے آئینی حقوق کی حفاظت ہو اور مدارس کے طلبہ آزادی سے تعلیم حاصل کر سکیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔