ہریانہ بی جے پی میں چپقلش اور رنجش کی جڑیں بہت گہری ہیں... ہرجندر
ہریانہ میں بی جے پی کئی طرح کے مسائل میں پھنسی ہوئی دکھائی دے رہی ہے، نہ وزیر اعلیٰ کے لیے کوئی چہرہ طے ہے اور نہ ہی حالات سازگار بنانے کی کوئی کوشش نظر آ رہی ہے۔
فلم اداکارہ سے رکن پارلیمنٹ بنیں کنگنا رانوت نے کسان تحریک کے بارے میں جب یہ کہا کہ وہاں لاشیں ٹنگی ہوئی تھیں اور عصمت دری کے واقعات ہو رہے تھے، تو پارٹی نے خود کو ان کے بیان سے الگ کر لیا۔ حالانکہ ہریانہ میں بی جے پی کو پریشان کرنے والا ایک حادثہ اس سے قبل ہی ہو چکا تھا۔ گزشتہ ہفتے ہریانہ پردیش بی جے پی صدر موہن لال بڈولی نے الیکشن کمیشن کو خط لکھ کر کہا کہ طویل ویکنڈ (ہفتہ کے آخر کی چھٹیاں) کے سبب ریاست کے بہت سے لوگ یکم اکتوبر کو اسمبلی انتخاب کے لیے ووٹنگ کی تاریخ کے قریب چھٹیاں منانے باہر جا سکتے ہیں، اس لیے ووٹنگ کی تاریخ آگے بڑھا دینی چاہیے۔ یہ ویکنڈ 28 ستمبر سے 2 اکتوبر تک چلے گا۔
ان کا مقصد جو بھی رہا ہو، لیکن اس کا فوراً ہی یہ مطلب لگایا جانے لگا کہ بی جے پی کا اعتماد ڈگمگا چکا ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ بھوپندر سنگھ ہڈا نے بلاتاخیر کہا کہ یہ چٹھی لکھ کر بی جے پی نے اپنی شکست قبول کر لی ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ عام طور پر کچھ ایک شہری لوگ ہی طویل ویکنڈ پر چھٹی منانے جاتے ہیں۔ یعنی یہ چٹھی لکھ کر بی جے پی نے ایک طرح سے قبول کر لیا کہ اس کی گرفت صرف شہروں میں ہی بچی ہے۔
پورے ہریانہ میں بی جے پی اس بار ایسے ہی کئی مسائل سے گھری ہوئی نظر آ رہی ہے۔ پارٹی کے اندر جتنی نااتفاقیاں ہریانہ میں دکھائی دے رہی ہیں، اتنی شاید ملک کی کسی دوسری ریاست میں دیکھنے کو نہیں مل رہی۔ بات پارٹی کے ریاستی صدر بڈولی سے ہی شروع کرتے ہیں۔ گزشتہ لوک سبھا انتخاب انھوں نے سونی پت سے لڑا تھا اور ہار گئے تھے۔ انتخابی نتائج کے بعد انھوں نے کہا تھا کہ وہ داخلی رنجش کا شکار ہوئے ہیں اور پارٹی کے اراکین اسمبلی نے ہی انھیں ہرانے میں بڑا کردار نبھایا ہے۔ سچ جو بھی ہو، ان کے اس بیان نے یہ تو ظاہر کر ہی دیا کہ پارٹی کے اندر سب کچھ ٹھیک نہیں چل رہا۔ لیکن بعد میں پارٹی صدر کے طور پر وہ کسی کے خلاف کوئی کارروائی کرتے ہوئے بھی دکھائی نہیں دیے۔
مشرقی ہریانہ کی سونی پت لوک سبھا سیٹ کے بعد اب چلتے ہیں مغربی ہریانہ کی رانیاں اسمبلی سیٹ پر۔ چودھری دیوی لال کے بیٹے رنجیت سنگھ چوٹالہ یہاں سے بی جے پی کے رکن اسمبلی اور وزیر توانائی بھی ہیں۔ وہ بی جے پی کے چند بڑے جاٹ چہروں میں سے ہیں۔ گزشتہ لوک سبھا انتخاب انھوں نے ہسار سے بی جے پی کے ٹکٹ پر لڑا تھا اور کانگریس کے جئے پرکاش سے ہار گئے تھے۔ اب انھوں نے یہ بیان دیا ہے کہ بی جے پی انھیں ٹکٹ دے یا نہ دے، وہ رانیاں سے ہی انتخاب لڑیں گے۔ اس بیان سے یہ تو پتہ لگتا ہی ہے کہ بی جے پی اپنے سینئر لیڈروں کو بھی اعتماد میں لینے میں ناکام رہی ہے۔
اس کے بعد چلتے ہیں شمالی ہریانہ میں جہاں ریاست کے سب سے سینئر بی جے پی لیڈر انل وج طویل وقت سے بغاوتی انداز اختیار کیے ہوئے ہیں۔ انھوں نے اسی وقت بغاوت کر دی تھی جب ریاست میں منوہر لال کھٹر کو ہٹا کر نائب سنگھ سینی کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا تھا۔ وہ نہ صرف نیا وزیر اعلیٰ منتخب کرنے کے لیے بلائی گئی میٹنگ سے ناراض ہو کر باہر آ گئے تھے، بلکہ انھوں نے ’مودی کا پریوار‘ کو اپنے ٹوئٹر ہینڈل سے ہٹا کر اس کے نیچے اپنی پروفائل کو لگا دیا تھا۔ اسمبلی انتخاب میں امیدواروں کی فہرست بنانے کے لیے بنی کمیٹی میں ان کا نام نہیں تھا۔ پھر احتجاج کے بعد انھیں اس کمیٹی میں شامل کر لیا گیا، لیکن اتنے بھر سے ان کے بغاوتی انداز ختم نہیں ہوئے۔ ویسے تو انل وج آر ایس ایس کے وقف کارکنان میں شمار کیے جاتے ہیں لیکن 1996 اور 2000 میں دو مرتبہ ایسا ہو چکا ہے کہ جب پارٹی نے انھیں ٹکٹ نہیں دیا تو وہ انبالہ کینٹ سے بطور آزاد امیدوار کھڑے ہوئے اور جیتے بھی۔
جنوبی ہریانہ میں گروگرام سے رکن پارلیمنٹ اور وزیر مملکت راؤ اندرجیت سنگھ کانگریس سے بی جے پی میں شامل ہوئے ہیں۔ گروگرام کے آس پاس کے اس علاقے مین ان کا بہت اثر ہے جسے اہیروال کہا جاتا ہے۔ مانا جاتا ہے کہ اس علاقہ کی 11 اسمبلی سیٹوں پر اہیر ذات کی کافی آبادی ہے اور وہ عظیم انقلابی راؤ تُلا رام کی نسل راؤ اندرجیت کو ہی اپنا لیڈر مانتے ہیں۔ وہ اس وقت بھی ناراض تھے جب وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی تیسری مدت کار میں بھی انھیں کابینہ وزیر کا درجہ نہیں دیا۔ اب وہ چاہتے ہیں کہ اس علاقے سے ان کے لوگوں کو ہی ٹکٹ ملے، خصوصاً ان کی بیٹی کو ٹکٹ حاصل ہو۔ وقتاً فوقتاً ان کی کانگریس میں واپسی کی خبریں بھی سنائی دیتی رہتی ہیں۔ گزشتہ دنوں انھوں نے یہ کہہ کر بی جے پی کو کافی پریشان کر دیا تھا کہ ہریانہ کے وزیر اعلیٰ عہدہ کا راستہ اہیروال سے ہی گزرتا ہے۔
ہریانہ میں بی جے پی کی سب سے بڑی دقت یہ رہی ہے کہ اس ریاست میں پارٹی کے پاس کوئی روایتی ووٹ بینک نہیں ہے۔ 2014 تک اس ریاست کی مکمل سیاست کانگریس اور دیوی لال فیملی کی پارٹی انڈین نیشنل لوک دل کے درمیان ہی چلتی تھی۔ کبھی کبھی کانگریس سے الگ ہوئے لیڈرا بھی اس میں ہاتھ آزما لیتے تھے۔ بی جے پی کو ہریانہ میں پہلا بڑا موقع 2014 کے عام انتخاب میں ملا۔ اس کی ایک وجہ تو وہ ماحول تھا جسے مودی لہر کا نام دیا گیا۔ دوسرا یہ کہ بی جے پی نے سوشل انجینئرنگ کے نام پر ذاتوں کا ایک غیر جاٹ اتحاد بنانے کی کوشش کی۔ یہ تجربہ کم از کم کچھ وقت کے لیے کامیاب رہا بھی۔ حالانکہ 2019 کے اسمبلی انتخاب میں اس فارمولہ کا اثر پوری طرح سے غائب دکھائی دیا۔
روایتی پارٹی نہ ہونے کے سبب پارٹی کے پاس کبھی کوئی ریاستی سطح کا بڑا لیڈر نہیں رہا۔ اس کے بیشتر بڑے لیڈران دیگر پارٹیوں سے ہی پارٹی میں آئے ہیں۔ 10 سال تک حکومت چلانے کے بعد بھی پارٹی کے پاس کوئی ایسا لیڈر نہیں ہے جو پوری ریاست میں بی جے پی کی قیادت کر سکے۔ کچھ وقت پہلے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا تھا کہ ہریانہ اسمبلی انتخاب کے لیے نائب سنگھ سینی ہی پارٹی کا چہرہ ہوں گے۔ لیکن بعد میں پارٹی اس سے منکر ہو گئی اور ابھی تک پارٹی کی طرف سے اس پر کوئی واضح بیان نہیں دیا جا رہا ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ پارٹی نریندر مودی کے چہرے پر ہی ہریانہ اسمبلی انتخاب بھی لڑے گی۔ لیکن دقت یہ ہے کہ ہریانہ میں اب کہیں کوئی مودی لہر دکھائی نہیں دے رہی۔
یہ بھی پڑھیں : ہریانہ اسمبلی انتخابات: رجحان و روایات کانگریس کے حق میں
اس مرتبہ ریاست میں بی جے پی لیڈروں کے حوصلے کس قدر پست ہیں، اسے وزیر اعلیٰ سینی کی مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ سینی فی الحال کرنال سیٹ سے اسمبلی کے رکن ہیں۔ پہلے یہ خبر آئی تھی کہ وہ یمنا نگر کی نارائن گڑھ سیٹ سے انتخاب لڑنا چاہتے ہیں جو ان کا پرانا علاقہ رہا ہے۔ پھر خبر آئی کہ وہ کروکشیتر ضلع کی لاڈوا اسمبلی سیٹ سے انتخاب لڑنا چاہتے ہیں۔ اب کہا جا رہا ہے کہ وہ سونی پت کی گوہانا سیٹ سے انتخاب لڑیں گے جہاں پر سینی طبقہ کے لوگوں کی تعداد بہت اچھی ہے۔ اس سے سینی کی شبیہ ایک ایسے وزیر اعلیٰ کی بن گئی ہے جو خود اپنے لیے ایک محفوظ سیٹ کی تلاش کر رہے ہیں۔
بات صرف لیڈر اور چہرے کی ہی نہیں ہے، پارٹی نے ابھی تک انتخاب کے لیے اپنا کوئی نریٹو بھی تیار کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ ابھی یہ صاف نہیں ہے کہ وہ اہم ایشوز کیا ہیں جن کے آس پاس پارٹی انتخاب لڑے گی۔ اس سے ووٹرس بھی بی جے پی کو لے کر تاریکی میں ہیں۔
ابھی تک جب بھی ہریانہ اسمبلی کے انتخاب آتے تھے، کانگریس لیڈران کی آپسی نااتفاقی ہر جگہ سنائی دیتی تھی۔ پہلی بار کانگریس سے زیادہ بی جے پی کی آپسی نااتفاقیاں سرخیوں میں ہیں۔ کانگریس سے وقتاً فوقتاً ایسی خبریں آتی رہتی ہیں کہ پارٹی نے مختلف گروپوں کے لیڈران کو ساتھ بٹھا کر ان کی نااتفاقیاں ختم کرنے کی کوشش کی، لیکن بی جے پی سے ابھی تک ایسی خبریں نہیں آ رہی ہیں۔ گزشتہ دنوں ہریانہ کے ایک صحافی نے بہت اہم تبصرہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ ہریانہ کانگریس میں تو نااتفاقی ہمیشہ سے رہی ہے، لیکن یہ پہلا موقع ہے جب بی جے پی کی نااتفاقیاں زیادہ سنگین ہیں اور یہ سیدھے طور پر پارٹی کے انتخابی امکانات کو متاثر کرتی دکھائی دے رہی ہیں۔
(یہ مضمون ہرجندر نے ہندی میں لکھی تھی جس کا اردو ترجمہ کیا گیا ہے)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔