فوڈ ٹیررزم اور عدم برداشت: گجراتیوں کی تاناشاہی کے خلاف بڑھ رہا ممبئی والوں کا غصہ

فوڈ ٹیررزم 1980 کی دہائی کے آخر میں تب شروع ہوا جب سابق وزیر اعظم مورارجی دیسائی نے اپنی عمارت کے گراؤنڈ فلور پر ایک نان ویج ریسٹورینٹ کو بند کرنے کے لیے مجبور کر دیا۔

<div class="paragraphs"><p>Getty Images</p></div>

Getty Images

user

سجاتا آنندن

جب وہ بیرون ممالک جا سکتے ہیں، امریکہ میں موٹل کھول سکتے ہیں، گائے کا گوشت بنانے والے ریستوراں میں جا سکتے ہیں یا گائے کا گوشت کھانے والے غیر ملکیوں سے شادی کر سکتے ہیں تو بھلا وہ اپنے ہی ملک میں پکائے جا رہے مچھلی یا گوشت کی بو کو کیوں برداشت نہیں کر پاتے؟ حال ہی میں ایک مراٹھی نے سوشل میڈیا پر کچھ اسی طرح اپنے غصے کا اظہار کیا۔ وہ ممبئی میں رہنے والے گجراتیوں کا تذکرہ کر رہے تھے جن کی ’فوڈ انٹولرنس‘ یعنی کھانے سے متعلق عدم برداشت دو طبقات کے درمیان ایک نئی کشیدگی پیدا کر رہی ہے۔

کچھ سال قبل کی بات ہے۔ شمالی ممبئی کے متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے مراٹھی اکثریتی علاقہ کاندیولی واقع ایک ہاؤسنگ سوسائٹی میں ایک اتوار لوگوں کی نیند صبح صبح تیز ہنگامے سے ٹوٹی۔ دو طبقات کے درمیان زبردست تنازعہ چل رہا تھا۔ سوسائٹی میں مراٹھیوں اور گجراتیوں کی آبادی تقریباً برابر تھی۔ گجراتیوں میں ہندو بھی تھے اور جین بھی۔ گجراتی اس دن علی الصبح اٹھ کر ’برمھ پوجا‘ کر رہے تھے۔ اسی وقت ایک مراٹھی کنبہ بھی دوپہر میں آنے والے مہمانوں کے لیے کھانا بنانے میں مصروف تھا۔ مینیو میں مچھلی اور بکرے کا گوشت دونوں شامل تھا۔ کونکنی مراٹھیوں کا پسندیدہ پکوان مچھلی ہے، جبکہ ریاست کے اندرونی حصوں میں رہنے والوں کا پسندیدہ پکوان مٹن (بکرے کا گوشت) ہے۔


جیسے ہی پریشر ککر میں بھاپ بننے لگا، مٹن اور مچھلی کی مہک آس پاس پھیل گئی۔ یہ ان کے گجراتی پڑوسیوں کو ناگوار گزرا اور ان لوگوں نے مراٹھی پڑوسی کے دروازے کو پیٹتے ہوئے انھیں ’نان ویج‘ کھانا پکانے سے منع کیا۔ انھوں نے ناراضگی ظاہر کی کہ گوشت کی بو ان کے پوجا والی جگہ تک پہنچ رہی ہے۔ گجراتی ذاتی طور پر پوجا کا انعقاد کر رہے تھے اور وہ کوئی سوسائٹی کا اجتماعی پروگرام نہیں تھا۔ اس لیے مراٹھی جوڑے نے گجراتیوں سے کہا کہ وہ مکمل احتیاط کر رہے ہیں کہ اس کی وجہ سے سوسائٹی میں کوئی گندگی نہ پھیلے اور انھیں اپنے گھروں میں جو بھی چاہیں پکانے اور کھانے کا حق ہے۔

ہونا تو ایسا ہی چاہیے تھا، لیکن گجراتی بضد رہے۔ نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔ اسی درمیان شور شرابے سے جاگے ایک شخص نے پولیس کو خبر دے دی۔ پولیس سوسائٹی میں پہنچی۔ جھگڑا کر رہے لوگوں کو حراست میں لیا، لیکن انھوں نے بھی اعتراف کیا کہ ہر کسی کو اپنا پسندیدہ کھانا بنانے کا حق ہے اور کوئی بھی اس سلسلے میں پڑوسیوں پر اپنی شرطیں نہیں تھوپ سکتا۔ انھوں نے گجراتیوں کو مشورہ دیا کہ اگر انھیں کوئی اعتراض ہے تو وہ سوسائٹی چھوڑ کر چلے جائیں۔ ساتھ ہی پولیس نے مراٹھی کنبوں کو اس تنبیہ کے ساتھ جانے دیا کہ وہ عوامی مقامات پر گوشت یا مچھلی کے باقیات و فضلات نہیں پھیلائیں گے۔


کچھ ماہ بعد ایک اور شہر میں ایسا ہی واقع پیش آیا۔ وہاں گجراتی اتنی آسانی سے پیچھے نہیں ہٹے۔ انھوں نے مراٹھی لوگوں کے دروازے پر کچرا پھینکنا شروع کر دیا۔ یہاں تک کہ کتے کی غلاظت، گائے کا گوبر بھی دروازے پر ڈال دیا۔ سوسائٹی نے کنبہ کا پوری طرح سے بائیکاٹ کر دیا اور اس بار مراٹھیوں کو بلڈنگ سے باہر کر دیا گیا۔

اس طرح کا فوڈ ٹیررزم 1980 کی دہائی کے آخر میں تب شروع ہوا جب سابق وزیر اعظم مورارجی دیسائی نے اپنی عمارت کے گراؤنڈ فلور پر ایک نان ویج ریسٹورینٹ کو بند کرنے کے لیے مجبور کر دیا کیونکہ اس کی بو سے ان کا جینا حرام ہو گیا تھا۔ ان کی حیثیت کو دیکھتے ہوئے انھیں اُس وقت کی حکومت اور افسران سے حمایت ملی جس کی وجہ سے اس ریستوراں کو بند کر دیا گیا۔ حالانکہ اس طرح کا کوئی قانون نہیں تھا جس کے تحت اس ریستوراں کو بند کرایا جاتا۔


بہر حال، دیکھتے دیکھتے یہی چلن بن گیا۔ خاص طور سے کچھ سال بعد آئے بامبے ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے مدنظر جس نے گجراتی سوسائٹی کو اپنی حساسیت کا حوالہ دیتے ہوئے غیر گجراتیوں کو بلڈنگ میں گھر نہیں دینے کی اجازت دے دی تھی۔

گزشتہ سال تین جین ٹرسٹوں اور ایک شخص نے بامبے ہائی کورٹ میں عرضی داخل کر گوشت کے اشتہارات پر اس بنیاد پر روک لگانے کا مطالبہ کیا کہ بچوں سمیت ان کے کنبوں کو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں ایسے اشتہارات دیکھنے کے لیے مجبور کیا گیا تھا۔ ان کی مفاد عامہ عرضی میں کہا گیا کہ ایسے اشتہارات ان کی زندگی گزارنے، امن اور پرائیویسی کے ساتھ جینے کے حق کی خلاف ورزی ہیں۔ حالانکہ اس بار بامبے ہائی کورٹ میں انھیں مایوس ہونا پڑا۔


اس سے قبل گوشت کی دکان پر روک لگانے کا فیصلہ سنانے والے ہائی کورٹ نے سوال کیا کہ آپ دوسروں کے بنیادی حقوق پر حملہ کیوں کر رہے ہیں؟ اس معاملے میں ہائی کورٹ نے کہا کہ سبزی خور یا گوشت خور ہونا ذاتی پسند ہے اور کسی بھی گوشت کی دکان کو کسی کے لیے بند کرنے کا حکم نہیں دیا جا سکتا۔ ہائی کورٹ نے مذہبی ٹرسٹوں سے کہا کہ ملک میں ایسا کوئی قانون نہیں ہے جس کی بنیاد پر گوشت کے اشتہارات پر روک لگائی جا سکے۔ لہٰذا ان ٹرسٹوں کو پیچھے ہٹنا پڑا۔

ممبئی میں 48 فیصد لوگ وسطی یا ذیلی طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں اور 30 فیصد گجراتی ہندو و جین کچھ زیادہ ہی خوشحال ہیں جس وجہ سے انھوں نے تناسب میں کہیں زیادہ رہائش خرید لیے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مقامی مراٹھی لوگ ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں اقلیتی بن گئے اور گجراتی غیر اعلانیہ روک لگانے کی حالت میں آ گئے۔


حال ہی میں ایک باپ-بیٹے نے ایک مراٹھی خاتون کے ساتھ برا سلوک کیا جو کرایہ کے لیے فلیٹ کی تلاش میں ان کی سوسائٹی میں گئی تھی۔ اس واقعہ نے ایک بار پھر ’فوڈ انٹولرنس‘ کے ایشو کو زندہ کر دیا۔ بی جے پی لیڈر اور مہاراشٹر کی سابق وزیر پنکجا منڈے نے دعویٰ کیا کہ سرکاری رہائش چھوڑنے کے بعد جب انھوں نے ذاتی رہائش لینے کی کوشش کی تو انھیں بھی تین چار بار منع کر دیا گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ مہاراشٹر کے باشندے ممبئی کو پھر سے اپنے اثر میں لینے کے لیے منظم ہو گئے ہیں۔

مہاراشٹر کے سابق وزیر این سی پی کے جتیندر اوہاڈ نے بتایا کہ کولی (ماہی گیر)، ایگری (جنھوں نے انگریزوں کے لیے ممبئی کی تعمیر کی) اور پٹھارے پربھو (جنھوں نے شہر کو ثقافتی بنیاد عطا کی) ممبئی کے حقیقی باشندے ہیں۔ سمندر سے گھرے ممبئی میں مچھلی اور چاول مہاراشٹر کے لوگوں کا اہم پکوان رہا ہے اور انھیں ایسی کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ بہت بعد میں وہاں آ کر بسنے والے گجراتی مہاجرین کی طرف سے تھوپے جا رہے ’کھانے کی تفریق‘ کی وجہ سے اپنی غذا چھوڑ دیں۔


ایک سوسائٹی میں تنہا رہنے والے اور اپنے و اپنے دوستوں کے لیے نان ویج پکانے والے ایک مراٹھی لڑکے نے بتایا کہ سوسائٹی کا سکریٹری یہ دیکھنے کے لیے ہر دن اس کے کوڑے دان کو کھنگالتا رہتا ہے کہ گزشتہ شب اس نے نان ویج پکایا تھا یا نہیں۔

اس پورے معاملے میں مہاراشٹر نونرمان سینا اب اپنے مخصوص انداز میں میدان میں کود پڑی ہے اور اس نے باپ-بیٹے کو معافی مانگنے پر مجبور کر دیا ہے۔ یہ راج ٹھاکرے کی پارٹی ہے جو کبھی بال ٹھاکرے کی قیادت میں حقیقی شیوسینا کا حصہ تھی اور طویل مدت تک ’مراٹھی مانس‘ کے ایشو پر فعال رہی تھی۔ موجودہ حالات کے لیے جب مہاراشٹر کے باشندے خود کو اپنی ہی ریاست میں حاشیے پر دیکھ رہے ہیں تو اس کے لیے انھیں بھی قصوروار ٹھہرایا جا رہا ہے۔


مراٹھی تجزیہ نگاروں کے ایک طبقہ کا ماننا ہے کہ بی جے پی کے ساتھ بال ٹھاکرے کے اتحاد نے مراٹھی شناخت کو ہندوتوا میں مشترک کر دیا جس سے مراٹھی شناخت حاشیے پر چلی گئی۔ ان کا کہنا ہے کہ 2014 میں نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد اس میں مزید تیزی آئی۔ انھوں نے دلیل دی کہ راج ٹھاکرے کے بزنس پارٹنر بھی بیشتر گجراتی ہیں جس سے ان کے یے مراٹھی مفادات کے لیے لڑنا مشکل ہو گیا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ملنڈ ہاؤسنگ واقعہ کے اگلے دن ایک مراٹھی لڑکے کی اس لیے پٹائی کی گئی کہ شمالی شہر کی ایک ہاؤسنگ سوسائٹی میں داخل ہوتے وقت اس نے وہاں رہنے والوں کی خواہش کے مطابق ’جئے شری رام‘ کا نعرہ لگانے سے انکار کر دیا تھا۔


نوجوان مراٹھا سوشل میڈیا پر ’شیٹھ جی اور بھٹ جی‘ (تاجروں، پجاریوں، برہمنوں اور گجراتیوں) کے خلاف بھڑاس نکال رہے ہیں، اور انھیں ممبئی و مہاراشٹر سے باہر نکالنے کی اپیل کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ کوآپریٹو قانون ماہرین بھی اس میں شامل ہو گئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مہاراشٹر ذیلی اصول ذات، طبقہ یا کھانے کی ترجیحات کی بنیاد پر رہائش میں تفریق کی اجازت نہیں دیتے۔

اسمبلی میں ممبران کے مسلم اکثریتی انتخابی حلقہ کی نمائندگی کرنے والے اوہاڈ نے چٹکی لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’جب مسلمانوں کو اسی بنیاد پر سوسائٹیوں میں رہنے نہیں دیا جاتا تھا تو ہم خاموش تھے۔ اب جب ہم خود اسی حالت کا سامنا کر رہے ہیں تو ہم ان کی تکلیف کو محسوس کر سکتے ہیں۔ ہم اس طرح کی تفریق کو نہیں بڑھنے دیں گے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔