کنگ میکر بن کر مرکز کی سیاست میں لوٹے چندربابو نائیڈو… سریش دھرور

چندربابو نائیڈو ایک بار پھر بہت اہم ہو گئے ہیں، مرکزی حکومت تشکیل دینے میں کردار ادا کرنے کے علاوہ ان کے لیے یہ موقع پارٹی کو مضبوط کرنے کا بھی ہے۔

<div class="paragraphs"><p>چندرابابو نائیڈو / آئی اے این ایس</p></div>

چندرابابو نائیڈو / آئی اے این ایس

user

قومی آواز بیورو

1996 میں سنیوکت مورچہ (مشترکہ محاذ) حکومت کے دوران کنگ میکر کے طور پر سامنے آنے والے این چندربابو نائیڈو تب آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ تھے۔ ان کا یہ بیان تب سرخیوں میں تھا کہ انھیں وزیر اعظم عہدہ کی پیشکش ہوئی تھی لیکن انھوں نے منع کر دیا، کیونکہ اپنی آبائی ریاست کی خدمت ان کی ترجیح ہے۔ اس کے بعد 28 سالوں کے دوران انھوں نے کئی نشیب و فراز دیکھے جس میں انھوں نے بی جے پی اور کانگریس دونوں کے ساتھ معانقہ کیا۔ اب نائیڈو ایک بار پھر این ڈی اے 3.0 کی قدر طے کرنے والے کنگ میکر بن کر ابھرے ہیں۔

نائیڈو کے اگلے سیاسی اقدام پر سبھی کی نگاہیں ہیں، کیونکہ ان کی ٹی ڈی پی 16 لوک سبھا سیٹوں کے ساتھ این ڈی اے کی سب سے بڑی معاون پارٹی بنی ہے اور بی جے پی کی قیادت والی اتحادی حکومت کی چابھی ان کے پاس ہے۔ سیاسی حلقوں میں بحث ہے کہ نائیڈو کی موجودگی نریندر مودی کو تاناشاہی روش چھوڑ کر زیادہ روادار اور اتفاق والا رخ اختیار کرنے کے لیے مجبور کرے گی۔ سیاسی مبصرین کے من میں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا نائیڈو (74 سال) نائب وزیر اعظم کا عہدہ ملنے پر مرکز میں جائیں گے؟ حامیوں کی دلیل ہے کہ ایسا کردار نائیڈو کو مودی-شاہ کی جوڑی کے پر کترنے میں بھی مدد کرے گی۔ حالانکہ ٹی ڈی پی سپریمو کے قریبی ذرائع نے ایسے امکانات سے انکار کیا۔ ایک قریبی نے کہا کہ ’’ان کی پارٹی کو آندھرا پردیش کے لوگوں سے زبردست مینڈیٹ ملا ہے۔ ان کی ترجیح ریاست کی معیشت کو دوبارہ رفتار دینا اور امراوتی کو راجدھانی بنانے کے ڈریم پروجیکٹ کو پورا کرنا ہوگا۔‘‘


نائیڈو کو این ڈی اے کا کنوینر بنائے جانے کا امکان ہے، یہ عہدہ انھیں نئے ساتھیوں کی تلاش کرنے میں مدد کرے گا۔ 1996 میں 13 پارٹیوں کو ساتھ لا کر سنیوکت مورچہ بنانے میں انھوں نے جو طاقت دکھائی تھی، وہ ان کے کام آ سکتا ہے۔ ٹی ڈی پی مبینہ طور پر لوک سبھا اسپیکر کا عہدہ چاہ رہی ہے۔ یہ تول مول 1998 کی یاد دلاتا ہے جب نائیڈو کی پارٹی نے جی ایم سی بالیوگی کو لوک سبھا اسپیکر بنانے کے بدلے واجپئی حکومت کو حمایت دی تھی۔ 29 سیٹوں والی ٹی ڈی پی 2004-1999 کے دوران بی جے پی کی سب سے بڑی ساتھی پارٹی تھی۔ اس بار علاقائی پارٹی کی خواہش والی فہرست میں دس کابینہ برتھ اور ریاست کو روادار مالیاتی امداد شامل ہے۔

سیاسی مبصرین اور آندھرا پردیش حکومت کے چیف مواصلات افسر رہ چکے ڈاکٹر پرکالا پربھاکر نے کہا کہ ’’اپنے تجربہ سے میں کہہ سکتا ہوں کہ نائیڈو مطمئن ہیں کہ انھیں مرکز سے کیا چاہیے۔ جب وہ 2018 میں این ڈی اے سے ہٹے تھے تو خصوصی زمرہ کا درجہ اہم ایشو تھا۔ اب جب وہ این ڈی اے میں واپس آ رہے ہیں تو وہ یقینی طور سے اس مطالبہ کو اٹھائیں گے۔ وہ پولاورَم سنچائی پروجیکٹ کو جلد پورا کرنے اور امراوتی کے لے مناسب مالی امداد کا بھی مطالبہ کریں گے۔‘‘


اصلاحات کے پوسٹر بوائے

ایک وقت نائیڈو قومی میڈیا میں چھائے ہوئے تھے، کیونکہ 1995 سے 2004 تک آندھرا کے وزیر اعلیٰ کی شکل میں ان کی مدت کار وسیع معاشی و انتظامی اصلاح والا اور تکنیک مرکوز تھا۔ اسی وجہ سے انھیں ’آندھرا پردیش کے سی ای او‘ کا لقب ملا۔ ان کی پیش قدمی نے حیدر آباد کو آئی ٹی منزل کی شکل میں بدلنے میں مدد کی جو بنگلورو کو ٹکرا دیتا ہے۔ نائیڈو کی کوششوں کو دنیا نے پسند کیا۔ 1999 میں ’ٹائم‘ میگزین نے انھیں ’ساؤتھ ایشین آف دی ایئر‘ کا تمغہ دیا۔ حالانکہ ان کی صنعت حامی، شہر مرکوز اور تکنیک پسند والی شبیہ 2004 کے انتخابات میں تباہ کن ثابت ہوئی۔ کانگریس لیڈر وائی ایس راج شیکھر ریڈی نے 2004 اور 2009 میں لگاتار دو مرتبہ ٹی ڈی پی کو شکست دی۔

تب نائیڈو نے عوام کو لبھانے والی باتوں کو اختیار کر اور دیہی ووٹرس کی حمایت پھر سے حاصل کرنے کی امید میں بایاں محاذ پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کا متبادل چنا، حالانکہ یہ ٹی ڈی پی کے زوال کو روک نہیں سکا۔ اپوزیشن میں ایک دہائی گزارنے کے بعد نائیڈو نے 2014 میں آندھر اپردیش میں اثردار واپسی کی، لیکن سیاسی منظرنامہ چیلنج سے بھرپور رہا۔ بی جے پی کے ساتھ ان کا اتحاد قلیل مدتی تھا اور 2019 کے انتخابات میں وائی ایس جگن موہن ریڈی کی صدارت والی وائی ایس آر کانگریس کے ہاتھوں ٹی ڈی پی کو بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ گزشتہ سال ’کوشل وِکاس گھوٹالہ‘ میں 52 دن جیل میں رہنے کے بعد ان کی مشکلات بڑھ گئیں۔ ایسا لگا کہ ان کا سیاسی کیریر ختم ہو گیا۔ حالانکہ نائیڈو کے عزائم اور مستقل مہم نے انھیں واپسی کرا دی۔ وائی ایس آر کانگریس حکومت کے خلاف اقتدار مخالف لہر پر سوار ہو کر اور عوامی فلاح اور ترقی کا وعدہ کرتے ہوئے ٹی ڈی پی نے حال ہی میں اسمبلی اور لوک سبھا کے لیے ایک ساتھ ہوئے انتخابات میں زبردست جیت حاصل کی اور مرکز میں ایک اہم کھلاڑی کی شکل میں ابھری۔


جھولتا سیاسی پینڈولم

آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ کی شکل میں صنعت کاروں کے ساتھ میٹنگوں میں نائیڈو کا پسندیدہ چٹکلا ہوا کرتا تھا ’ازم کا دور گزر گیا۔ واحد ازم جو اس وقت ہے، وہ ہے ٹورزم‘۔ حیرانی نہیں کہ ٹی ڈی پی نے اپنے ساتھیوں کو منتخب کرتے وقت نظریات کی جگہ سلوک کو ترجیح دی ہے۔ اگست 1995 میں نصف شب کو سیاسی تختہ پلٹ میں اپنے سسر کو بے عہدہ کرنے کے بعد نائیڈو نے علاقائی پارٹی کی باگ ڈور سنبھالی، تب سے پارٹی کا سیاسی پینڈولم بے تحاشہ جھول رہا ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں میں انھوں نے الگ الگ وقت اور رائٹ وِنگ پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کیا۔

مرکز میں سنیوکت مورچہ اور این ڈی اے حکومتوں کی تشکیل میں کردار کے لیے انھیں کنگ میکر کی شکل میں دیکھا گیا۔ سنیوکت مورچہ کے کنوینر کی شکل میں انھوں نے نہ صرف پالیسی سازی میں بلکہ وزیر اعظم عہدہ کے امیدواروں کو طے کرنے میں اہم کردار نبھایا۔ بعد میں این ڈی اے حکومت کے دوران ان کی پارٹی کو باہری حمایت بی جے پی کی قیادت والے اتحاد کے وجود کے لیے اہم ثابت ہوا۔ وہ این ڈی اے کے ساتھ چھ سال تک جڑے رہے اور 1991 و 2004 میں بی جے پی کے ساتھ اتحاد میں انتخاب لڑے۔


حالانکہ 2004 میں مشترکہ آندھرا پردیش میں اقتدار سے بے دخل ہونے کے بعد نائیڈو بی جے پی سے ناطہ توڑ بایاں محاذ پارٹیوں کے قریب چلے گئے، لیکن 2014 کے عام انتخابات سے پہلے واپس بھگوا خیمہ میں آ گئے۔ اس کے فوراً بعد ان کی پارٹی مودی حکومت میں شامل ہو گئی، لیکن آندھرا پردیش کو خصوصی درجہ نہ دیے جانے کی مخالفت میں 2018 میں اسمبلی انتخابات سے قبل اتحاد چھوڑ دیا۔ اس سال نومبر میں نائیڈو نے قومی سطح پر بی جے پی مخالف اتحاد بنانے کے لیے کانگریس سے ہاتھ ملایا۔ حالانکہ ان کے سیاسی نشیب و فراز ووٹرس کو پسند نہیں آئے اور 2019 کے انتخابات میں ٹی ڈی پی کو زبردست شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ نسل پرستی، بدعنوانی، ترقیات سے متعلق ترجیحات میں کمی، ادھورے وعدے، بڑھتی بے روزگاری اور راجدھانی شہر کی تعمیر میں سستی رفتاری ان کی پارٹی کے لیے نقصاندہ ثابت ہوئی۔ نتیجتاً بغیر کسی انتظامی تجربہ والے جگن موہن ریڈی اقتدار میں آ گئے۔ نائیڈو کو اپنے کیریر میں سب سے بڑی پریشانی اس وقت برداشت کرنی پڑی جب انھیں گزشتہ سال مبینہ ’کوشل وِکاس گھوٹالہ‘ معاملہ میں گرفتار کیا گیا تھا۔ نائیڈو کو 9 ستمبر کو گرفتار کیا گیا تھا اور انھوں نے تقریباً دو ماہ راجہ مہندرورَم سنٹرل جیل میں گزارے۔ انھیں 31 اکتوبر کو عبوری ضمانت دی گئی تھی جسے 20 نومبر کو مستقل کر دیا گیا۔ این ڈی اے میں لوٹنے کا ان کا حالیہ فیصلہ سیاسی مفاد سے متاثر تھا۔ ٹی ڈی پی کو لگا کہ مل کر لڑائی لڑنے سے وائی ایس آر سی پی حکومت کو ہٹانے میں مدد مل سکتی ہے۔ 2024 کے لوک سبھا مینڈیٹ نے انھیں کنگ میکر بننے اور اپنی پارٹی کو دوبارہ مضبوط بنانے کا موقع دیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔