لوک سبھا انتخاب 2024: اور ہندو واقعی بیدار ہو گیا...!— پنکج شریواستو

10 سال کرسی پر بیٹھنے کے بعد ان کی تقریر میں تھا- مچھلی، مغل، مسلمان، مسلم لیگ، منگل سوتر... یہاں تک کہ بھینس بھی۔

وزیر اعظم نریندر مودی / ویڈیو گریب
وزیر اعظم نریندر مودی / ویڈیو گریب
user

قومی آوازبیورو

2024 کے انتخابی نتائج ہندوؤں کے بڑے حصے کے ’بیدار ہونے‘ کی منادی کر رہے ہیں۔ ان ہندوؤں نے بیدار ہونے کے ساتھ جو سب سے پہلی انگڑائی لی، اس نے خود کو ’دیودوت‘ (پیغمبر) قرار دینے والے سیاسی لیڈر کا چہرہ بگاڑ دیا ہے۔

دھیان دیجیے، یہ صرف انگڑائی ہے!

اس سیاسی لیڈر کا نام سب جانتے ہیں۔ نریندر دامودر داس مودی۔ سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے کچھ دن پہلے بہت افسردہ ہو کر کہا تھا کہ وزیر اعظم عہدہ پر بیٹھے کسی دیگر شخص نے ایسی گھٹیا اور تخریب کاری والی زبان کا استعمال نہیں کیا جیسا کہ مودی نے کیا۔

10 سال کرسی پر بیٹھنے کے بعد ان کی تقریر میں تھا- مچھلی، مغل، مسلمان، مسلم لیگ، منگل سوتر... یہاں تک کہ بھینس بھی۔

کسی بھی بیدار ہندو کو ملک کے سب سے بڑے لیڈر کی اس زہر انگیزی سے گھِن آ سکتی تھی... کچھ لوگ کسی طرح روک لے گئے، لیکن بہتوں کو گھِن آ ہی گئی۔

بیدار ہندو کو سب سے بڑا ملال ان مسلمانوں کو لے کر ہے جنھوں نے لڑنا، بھڑنا، یہاں تک کہ گہری سے گہری چوٹ پر رد عمل ظاہر کرنا بھی چھوڑ رکھا ہے۔ پڑوس بہت بدلا ہے، لیکن انھیں کچھ دہائی پہلے کے ان محلوں کا ساجھاپن یاد ہے جہاں ہولی-دیوالی، عید، بقرعید کی خوشیوں میں بے طرح ساجھا ہوتا تھا۔

(ان سطور کو لکھنے والے کو یاد ہے کہ کس طرح اودھ کے اپنے نانیہالی گاؤں میں تعزیے کے نیچے سے نکلتا تھا اور پھر چھوٹے بھائی کے ساتھ تلوار بازی کرتا تھا۔ کربلا کی جنگ اور حسین کی شہادت کسی دور ملک کی کہانی نہیں تھی۔ تعزیے کا پورا انتظام حافظ جی کے حوالے تھا جنھیں ماں بچپن سے راکھی باندھتی تھیں۔)

بیدار ہندو کو اس مسلمان کی شدت سے تلاش ہے جو کبھی بے خوف بولتا تھا اور بے جھجک لڑتا تھا۔ ایسا مسلمان جسے یقین تھا کہ حکومت سے لے کر انتظامیہ تک اس کی بھی ہے... ہر جگہ اس کی سماعت ہوگی۔ تھانہ جانے سے اسے ڈر نہیں لگتا تھا۔ وہ اوپر سے لے کر نیچے تک ہندوستانی تھا اور ہندوستان پر اپنا حق سمجھ کر چوڑے سے رہتا تھا۔ ہندوستان اتنا ہی اس کے باپ کا تھا، جتنا کسی ہندو کے باپ کا۔

بیدار ہندو دیکھ رہا تھا کہ پی ایم مودی اور ان کی بریگیڈ کے زہریلے نشانے پر آ کر یہ طبقہ اس قدر سہما ہوا ہے جیسے کہ کسی پرائے ملک میں ہو۔ اپنے میں سمٹا ہوا، جسے جان کی امان کے علاوہ کچھ نہیں چاہیے۔


بیدار ہندوؤں کو یہ بات منظور نہیں ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ مسلمان اس کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چلے ہی نہیں، پوری طاقت سے دو دو ہاتھ بھی کرے، بغیر یہ پروا کیے کہ ایسا کرنے پر اس کا مذہب نشانے پر لیا جائے گا۔ سمجھداری کی بات کرے تو بے وقوفی کرنے کو بھی آزاد ہو۔

بیدار ہندو یہ بھی ماننے کو تیار نہیں ہوا کہ کورونا جیسے وائرس تبلیغی جماعت کے لوگوں کی تعویذ سے نکلا تھا۔ وہ جانتا ہے کہ مذہب کی بنیاد پر فرق کرنا گھٹیا انسانوں کی فطرت ہے، وائرس میں ایسا گھٹیاپن نہیں پایا جاتا۔

کسی جھونک میں وائرس بھگانے کے لیے تالی-تھالی بجانے کا مودیاپا کرنے والا ہندو بیدار ہونے کے بعد اپنی اس حرکت پر شرمندہ ہے۔

اوّل اللہ نور اُپایا، قدرت دے سب بندے

ایک نور سے سب جگ اُپجیا، کون بھلے کون مندے!

بیدار ہندو جانتا ہے کہ کوئی مسلمان اتنا ہی اچھا یا برا ہو سکتا ہے، جتنا کوئی ہندو۔ دونوں ہی ہندوستان کے بیٹے ہیں۔ لائق بھی ہیں اور نالائق بھی۔ دونوں طبقات میں دھوکہ بازوں کی طویل فہرست ہے، تو دوستی سے لے کر ملک پر سب کچھ قربان کرنے والی کی فہرست اس سے بھی طویل ہے۔

بیدار ہندو نے جب مودی کو بار بار وویکانند کی جگہ (کنیاکماری) پر دیکھا تو اسے یاد آیا کہ وویکانند نے کہا تھا- ہندوستان کی امیدیں دو تہذیبوں ہندو اور مسلمان کے اشتراک میں ہیں۔ ویدانتی ذہن اور اسلامی جسم!

وویکانند نے شکاگو کی دھرم سنسد میں سبھی مذاہب کو حقیقت تک پہنچنے کا راستہ بتایا تھا، نہ کہ صرف ہندو مذہب کو۔

بیدار ہندو کو یہ بھی یاد آیا کہ اس کے مذہب میں تو کسی کو بھی ’دیگر‘ مانا ہی نہیں گیا ہے۔ اپنا پرایا کرنے والوں کو نیچ کہا گیا ہے۔ پھر یہ کون لیڈر ہے جو کپڑوں سے پہچاننے کی بات کر رہا ہے۔

بیدار ہندو نے کاشی کی گلیوں میں ’ہر ہر مہادیو‘ کو ’ہر ہر مودی‘ ہوتے دیکھا اور نالیوں میں مورتیوں کے ٹوٹے حصے و سینکڑوں مندروں کی چوٹیاں۔ اس کی مخالفت کرنے والے شنکراچاریہ کو دھتکارنے والا ’ہندو ہردے سمراٹ‘ کا تمغہ اپنے سینے پر ٹنکوا رہا تھا۔ بیدار ہندو اپنی کاشی کو تلاش کر رہا تھا، اسے کیوٹو کی تصویر تھمائی جا رہی تھی۔


سب سے برا تو رام کے نام پر ہوا۔ بیدار ہندو مسلم نوابوں کے ذریعہ تعمیر ہنومان گڑھی میں پیشانی ٹیک کر ایودھیا کے تمام چھوٹے بڑے مندروں میں زیارت کرنے جاتا تھا۔ اب حکم ہے کہ سبھی راستے اسی ادھورے رام مندر کی طرف جائیں جہاں شنکراچاریہ کی مخالفت کے باوجود پران پرتشٹھا کا سیاسی جشن منایا جا چکا ہے۔ بڑی بڑی دکانوں میں مہنگے سامان خریدنے کی مجبوری نے اس ایودھیا کو غائب کرنے کی کوشش کی جہاں کے رام تلسی کے لفظوں میں ’غریب نواز‘ ہیں۔

بیدار ہندو نے دیکھا کہ ایودھیا کے چھوٹے دکانداروں اور تمام مندروں کے پجاریوں کے گھر فاقہ پڑ رہا تھا اور بڑے بڑے بی جے پی لیڈران کوڑیوں کی زمین خرید کر رام مندر ٹرسٹ کو کروڑوں میں فروخت کر مال کاٹ رہے ہیں!

رام نام پر ہو رہی اس لوٹ سے غمگین بیدار ہندو نے نعرہ دے دیا-

نہ متھرا نہ کاشی، ایودھیا میں اودھیش پاسی!

اور بی جے پی کے للو سنگھ انتخاب ہار گئے۔ مریادا توڑنے والوں کے لیے مریادا پروشوتم کی نگری سے اس سے بہتر پیغام کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔

ویسے بھی ہندو جب جب بیدار ہوتا ہے، بھگوا لباس پہنے شیطانوں کو پہچان لیتا ہے۔ پھر چاہے وہ کالنیمی ہو یا راون۔

بیدار ہندو کبھی بھول نہیں سکتا کہ راون نے بھگوا پہن کر سیتا کو اغوا کیا تھا، اس لیے بھگوا پہن کر اقتدار کا اغوا کرنے کی کوششوں کو پہچاننے میں اس نے بھول نہیں کی۔

تلسی بابا لکھ گئے ہیں-

اوگھرہیں اَنت نہ ہوئے نباہو۔ کالنیمی جیمی راون راہو۔

اس طرح بیدار ہندو نے انتخابی نفع کے لیے رام رام کر رہے کالنیمی کی گردن دبوچ لی ہے۔ اسی کے ساتھ ملک کی کروڑوں گردنوں پر کسا ہوا شکنجہ ڈھیلا ہوا ہے۔

اس بیدار ہندو کی جئے ہو!

جو لوگ ایودھیا میں بی جے پی کی شکست اور کاشی میں منھ بلی کی فکر انگیز جیت کے لیے ہندوؤں کو بھلا برا کہہ رہے ہیں، وہ سیتا کے اغوا میں راوَن کا تعاون کرنے والے ماریچ کی طرح ہیں۔ انھیں بھی رام کے تیر کا مزہ چکھنا پڑے گا۔ آج نہیں تو کل!

(یہ تحریر پنکج شریواستو نے اپنے فیس بک پیج پر ہندی زبان میں لکھی ہے، جس کا ترجمہ یہاں پیش کیا گیا ہے)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔