پوتی کا خط دادی کے نام اور دادی کا جوابی خط (چوتھی قسط)

’’آج آپ کو خط لکھنے کا دن تھا لیکن میں جلدی میں ہوں، ایک کالج میں ملازمت کا امتحان ہے، مجھے معلوم ہے ملے گی نہیں، پھر بھی جا رہی ہوں، سنا ہے آر ایس ایس کے دلال 30 لاکھ روپے لے رہے ہیں ملازمت کے!‘‘

<div class="paragraphs"><p>علامتی تصویر</p></div>

علامتی تصویر

user

قومی آوازبیورو

پوتی کا خط

دادی ماں!

آج آپ کو خط لکھنے کا دن تھا، لیکن میں جلدی میں ہوں، دوپہر میں ایک کالج میں ملازمت کا امتحان ہے، مجھے معلوم ہے ملے گی نہیں، پھر بھی جا رہی ہوں، سنا ہے آر ایس ایس کے دلال 30 لاکھ روپے لے رہے ہیں ملازمت دینے کے۔ جو 30 لاکھ میں ملازمت خریدے گا وہ کیا پڑھائے گا۔

وعدہ رہا، اگلے خط میں جو ہوا سب کچھ لکھ دوں گی۔ ہاں آپ بچپن والی کہانی لکھنا مت بھولیے گا۔

دونوں گالوں پر پُچیاں

آپ کی ننھی گوریّا

دادی کا خط

پیاری لاڈو بٹیا!

ہاں، تم نے کہا تھا نہ کہ تم کسانوں کی تحریک میں گئی تھیں، تو مجھے یاد آیا گجرات میں ایک جگہ ہے بارڈولی۔ 1928 کی بات ہے، حکومت نے کسانوں پر ٹیکس بڑھا دیا۔ بھکمری کا یہ حال تھا کہ کسان اور جانور دونوں کا چمڑا ہڈیوں سے لگ چکا تھا، اوپر سے ٹیکس۔ بارڈولی کے کسان سردار ولبھ بھائی پٹیل کے پاس گئے اور کہا ہم ٹیکس نہیں دے سکتے۔ آج تو سب انھیں پٹیل کہتے ہیں، تب ہم سب انھیں سردار یا سردار صاحب کہتے تھے۔ سردار نے کہا سوچ لو بغاوت برداشت کرنا آسان نہیں۔ سب وعدہ کرو کے جب دولت ضبط ہوگا، ملکیت ضبط ہوگی، نیلامی ہوگی، جیل جانا پڑے گا تو کوئی نہ تشدد کرے گا اور نہ جھکے گا۔ تبھی میں تمھارے ساتھ تحریک کروں گا۔ ضلع کے سارے گاؤں میں پنچایت ہوئی۔ سب نے عدم تشدد پر مبنی تحریک کرنے کا حلف لیا۔


سردار نے حکومت کو خط لکھا کہ ٹیکس رد کرو۔ حکومت نے جواب دینے کی جگہ ٹیکس جم عکرنے کی تاریخ کا فیصلہ سنا دیا۔ سردار، نرہری پارکھ، روی شنکر ویاس اور موہن لال پانڈیا نے فیصلہ لیا اور کسانوں سے کہا کہ اپنے برتن بھانڈے اور زیور دوسرے شہروں میں رشتہ داروں کے گھر میں چھپا دو، یا زمین میں گاڑ دو۔ جب وہ ٹیکس لینے آئیں تو گھر میں کچھ نہیں ملنا چاہیے۔ ہر گاؤں کی سرحد پر لوگوں کی ذمہ داری لگا دی جب ٹیکس لینے والے آتے ہوئے دکھائی دیں تو ڈھول بجانا، اور گاؤں والوں سے کہا سب گھر چھوڑ کر جنگلوں میں چھپ جانا۔ اس سے پہلے کہ ٹیکس والے پہنچتے ڈھول بجتا اور انھیں گاؤں میں سارے گھر، جھگی-جھونپڑیاں خالی ملتیں، کس سے پوچھتے کس کی ملکیت ہے، کتنا ٹیکس ہے؟ حکومت نے گاؤں کے گاؤں ضبط کر لیے۔ نیلامی کے لیے بولی لگانی شروع کر دی۔ غصہ پورے ملک میں پھیل چکا تھا۔ لوگوں نے بارڈولی کی ہر ملکیت خریدنے سے انکار کر دیا، اکا دُکا زمینداروں نے جب ملکیت خریدی تو ان کا حقہ پانی بند کر دیا گیا۔

آخر کار سرکار کو جھکنا پڑا، جیسے مودی کو جھکنا پڑا ہے ویسے ہی، کسانوں سے سمجھوتہ کیا، ٹیکس گھٹایا گیا، ملکیت واپس کی گئی۔ سردار تب تک چین سے نہیں بیٹھے جب تک ہر کسان کی ملکیت واپس نہیں لوٹائی گئی، جن زمینداروں نے لوٹانے سے انکار کیا ان سے کسانوں کے کھیت کھلیان خریدے گئے اور کسانوں کو لوٹائے گئے۔ یہ تھی تحریک آزادی اور ایسے تھے میرے ملک کے جیالے لوگ۔ جدوجہد کرنے والے، عدم تشدد کے حامی اور مطالبات پر جمے رہنے والے، اور ایک دوسرے کا درد بانٹنے والے۔

کسانوں نے جس تحریک میں تم گئی تھیں اس نے مجھے بارڈولی، چمپارن، کھیڑا اور تیبھاگا تحریک کی یاد دلا دی۔

پڑوس کے ورما جی بتا رہے تھے ان کی بیٹی نے ہوم لون لیا تھا دہلی میں فلیٹ خریدنے کے لیے حکومت نے اس پر 44 فیصد سود بڑھا دیا، یہ بات انھوں نے اخبار میں پڑھی تو فلیٹ فروخت کرنے کی نوبت آ گئی، لیکن خریدار کوئی نہیں۔ بارڈولی میں تو برطانوی حکومت نے صرف 22 فیصد ہی ملکیت ٹیکس بڑھایا تھا اور ملک میں مانو آگ سی لگ گئی ہو۔ آج کیوں اس ظلم کے خلاف کوئی اٹھنے کو تیار نہیں۔ کیا ہو گیا ہے میرے ملک کو۔


یہ تو تھی سچی کہانی اور اب میری ایک فکر:

پیاری بٹیا، ہماری نسل کو جو کرنا تھا کر لیا، آزادی کے بعد ملک کو سجانے سنوارنے کی بھرپور کوشش کی، اب یہ ملک تمھاری نسل کے ہاتھ میں ہے۔ اسے برباد کرنے کے لیے پھر ایک 73 سال کے تاناشاہ کے ہاتھ مت سونپ دینا۔ دس سالوں میں جو ہوا سو ہوا، بس اب اور نہیں۔

ہاں، یہ کہانی بھی اپنی دوستوں کو سنانا۔ یہ ملک اب تم نوجوانوں کے ہاتھ ہے۔

تم تحریکوں میں گئیں، زانیوں کے خلاف ڈنڈے کھائے، اگر میں وہاں ہوتی تو تمھیں گلے لگاتی اور پیشانی بھی چومتی اور ہاتھ بھی۔

ڈھیر سارا پیار

تمھاری دادی

پوتی کا خط

دادی ماں، آپ کو یاد ہے نہ میری دوستیں، سنیتا اور شاہجہاں ان کا سارا کنبہ کووڈ کے دوران ختم ہو گیا، کتنی تڑپتی تھیں دونوں، آکسیجن کا انتظام کرنے کے لیے، دونوں یتیم ہو گئیں۔ میرے کئی دوستوں کے گھر میں ہمیشہ کے لیے تاریکی چھا گئی، شمشان گھاٹ میں لاش بکھرے ہوئے تھے، قبرستان میں زمین کم پڑ گئی۔ آپ کو سنگم کی تصویریں تو یاد ہوں گی، لیکن دہلی کا بھی وہی حال تھا۔ اس آدمی نے کورنیل کا ڈھنڈورا تو پیٹا، خوب بیچی، لیکن آکسیجن نہ دے کر لاکھوں کا گلا گھونٹ دیا۔ جن کے دل پر زخم اب بھی ہرے ہیں بدلا تو لیں گے ہی۔

یہ میری زندگی کا پہلا ووٹ ہے، مجھے خوشی ہے میں بھی ہر دوست کے غم کا، اس کے آنسوؤں کا بدلہ لوں گی۔ ابھی میری شہریت بچی ہوئی ہے، ابھی آئین بچا ہوا ہے۔ بابا صاحب کا دیا ہتھیار ہے میرے پاس۔ اس ہی سے انھیں شکست دوں گی۔


دادی ماں، میں نے ایک جھوٹ بولا تھا، آج دوسرا دن ہے کھانا نہیں کھایا۔ شام کو ٹیوشن کے پیسے ملیں گے، میں کھانا کھاؤں گی اور سوچوں گی آپ کی گود میں بیٹھی ہوں، ایک نوالہ ہاتھی کا، ایک نوالہ گھوڑے کا، ایک نوالہ کوے کا، ایک نوالہ گوریا کا، ایک ووٹ بے روزگاری کے خلاف، ایک ووٹ مہنگائی کے خلاف، ایک ووٹ نوٹ بندی کے خلاف، ایک ووٹ خواتین کی بے عزتی کے خلاف، ایک ووٹ ای ڈی، سی بی آئی کے خلاف، ایک ووٹ نفرت کے خلاف، ایک ووٹ جھوٹی حکومت کے خلاف۔

دادی کی بہادر پیاری سی بٹیا

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔