پوتی کا خط دادی کے نام اور دادی کا جوابی خط (تیسری قسط)
’’آپ میری طرف سے بالکل فکر نہ کریں، میں وقت پر کھانا کھاتی ہوں۔ کمرے میں خود پکاتی ہوں، کبھی دال چاول، کبھی روٹی سبزی، اور ہفتے میں ایک بار سب دوست مل کر پکاتے ہیں میرے کمرے میں اور مزے کرتے ہیں‘‘
پوتی کا خط
آپ میری طرف سے بالکل فکر نہ کریں، میں وقت پر کھانا کھاتی ہوں۔ کمرے میں خود پکاتی ہوں، کبھی دال چاول، کبھی روٹی سبزی، اور ہفتے میں ایک بار سب دوست مل کر پکاتے ہیں میرے کمرے میں اور مزے کرتے ہیں۔ اور پھر ہم سب مل کر خان سر کا لیکچر سنتے ہیں۔ میرا لیپ ٹاپ بڑا ہے نہ، اور نیا بھی۔ سب کو بہت پسند ہے۔
ہاں دادی ماں، جببھی میں لیپ ٹاپ استعمال کرتی ہوں تو آپ کی چوڑیاں یاد آ جاتی ہیں جنھیں آپ نے رہن رکھا تھا۔ سیل فون کی ضرورت پڑی تو ماں نے انگوٹھی فروخت کر دی۔ پہلی تنخواہ سے میں آپ کی چوڑیاں تو ضرور چھڑا لوں گی، پھر ماں کو نئی انگوٹھی دلواؤں گی۔
یہاں کچھ بچوں کو ایک گھنٹہ پڑھاتی ہوں، کافی پیسے مل جاتے ہیں۔ خرچ چل جاتا ہے۔ لیکن اپنی پڑھائی پر پورا دھیان ہے۔ آپ کی، ماں جی کی، بابو جی کی، دادا جی کی یاد آتی ہے تو کبھی کبھی رو بھی پڑتی ہوں، پھر سوچتی ہوں یہ پیار کے آنسو ہی تو ہیں۔
ایک بات بتاؤں، ماں اور بابا سے مت کہیے گا۔ جب کشتی میں اولمپک میڈل جیتنے والی لڑکیاں جنتر منتر پر زانی کے خلاف مظاہرہ کر رہی تھیں تو میں بھی وہاں گئی تھی۔ پولیس نے انھیں گھسیٹ گھسیٹ کر بے دردی سے مارا۔ میں نے بھی کچھ ڈنڈے کھائے۔ یہ تو پہلے ہی پتہ تھا کہ ’بیٹی پڑھاؤ‘ کے نام پر میرا اور میرے ساتھیوں کا کیا حال کیا ہے اس سرکار نے۔ جنتر منتر پر یہ بھی پتہ چل گیا کہ ان کے ’بیٹی بچاؤ‘ کا کیا مطلب ہے۔
پہلے ڈر لگا، پھر سوچا دادی کی بیٹی ہوں، انھوں نے تو دنیا کی سب سے بڑی استحصال کرنے والی طاقت کے خلاف تحریک چلا کر انھیں بھگا دیا، مجھے بھی نہیں ڈرنا۔ ڈر کر جینے سے مرنا بہتر ہے، یہی سکھایا ہے نہ آپ نے۔ آج سارا ملک ڈر ڈر کر جی رہا ہے، سرکار اب لوگوں کی سیکورٹی کے لیے نہیں ان کو ڈرانے کے لیے ہے۔ لوگ ٹوئٹر اور فیس بک پر سرکار کے خلاف لکھتے ہوئے ڈرتے ہیں، نوکری نہیں ملے گی اگر کچھ لکھ دیا و۔ انگریزی حکومت سے بھی بدتر ہے یہ حکومت۔
میں ہمت والی دادی کی ہمت والی بیٹی ہوں، نہیں ڈروں گی، اور میرے جیسے کروڑوں نوجوان ہیں جو ڈرنے سے انکار کرتے ہیں۔ سب ڈر گئے تو آواز کون اٹھائے گا۔
اسکولوں کے کورس میں جو بدلا سو بدلا، لیکن سائنس بھی بدل دیا، جو بچے اب پڑھ کر نکلیں گے انھیں ترقی کا اصول بھی پتہ نہیں ہوگا۔ کیسے اب کوئی جے سی بوس، سی وی رمن، ہومی بھابھا، سی این آر راؤ پیدا ہوگا۔ کیسے چندرشیکھر، وینکی رام کرشنن، امرتیہ سین، ابھجیت جیسے لوگ نوبل ایوارڈ حاصل کر کے دنیا میں ملک کا نام روشن کریں گے۔ مودی کو تو اے+بی ہول اسکوائر بھی نہیں آتا، نالے کی گیس سے چائے بنا کر ملک چلا رہا ہے۔ بس، اب سب نالے کی گیس سے چائے بنا کر ملک چلائیں گے۔
دادی ماں، میرا تو دل چاہتا ہے بس آپ کو خط لکھتی ہی رہوں، لیکن کیا کروں دال چاول ختم ہو گیا ہے، مارکیٹ جانا ہے۔ وہیں خط بھی پوسٹ کر دوں گی۔ ہاں، اگلے خط میں بھی اپنی زندگی کی کہانی لکھنا مت بھولیے گا۔
ڈھیر سارا پیار
آپ کی بیٹی
دادی کا خط
ہاں، تم نے کہا تھا میں پرانے وقتوں کی ایک کہانی ہر بار ضرور لکھوں، تو سنو۔ تمھارے پردادا یعنی میرے والد محترم سنایا کرتے تھے کہ جب وہ جوان تھے تو باپو گاندھی نے نمک تحریک شروع کر دی، وہ بھی ڈانڈی یاترا میں شامل ہو گئے۔ انگریزوں نے نمک پر ٹیکس لگا دیا، اور ملک مانو اُبل پڑا، جیسے آگ لگ گئی ہو، قانون توڑنے کے لیے لوگوں نے گاؤں گاؤں، گھر گھر میں نمک بنانا شروع کر دیا۔ ایک جنون سوار ہو گیا سب پر۔ لوگ رات رات بھر کڑھاؤ میں پانی اُبالتے، کڑھاؤ خرچتے اور اگر ایک چمچہ نمکبھی مل جاتا تو پڑیا بنا کر ترنگا لیے جلوس نکالتے، نعرے لگاتے اور پرساد کی طرح چٹکی بھر نمک سب میں تقسیم کیا جاتا۔
ہمارے گھر میں ایک کنواں تھا، اس کا پانی بہت کھارا تھا، اسے کوئی پوچھتا بھی نہیں تھا، بس یوں ہی پڑا تھا، پتھر رکھے تھے اس کے اوپر۔ ’نمک ستیاگرہ‘ شروع ہوا تو بابو جی کے والد نے اسے کھلوایا، کڑھاؤ میں اس کا پانی رات بھر جلایا گیا، ایک کٹوری نمک نکلا۔ پھر کیا تھا، اس کنوئیں کے دن پھر گئے، سینکڑوں کی بھیڑ اکٹھا ہو گئی۔ ہر ایک کو اسی کنوئیں کا بالٹی بھر پانی چاہیے تھا۔ دادا جی نے ایک ٹوکری کنوئیں کے پاس رکھ دی اور کہا جسے پانی چاہیے ایک بالٹی لے جاؤ، لیکن تحریک کے لیے اس ٹوکری میں چندہ ڈالو۔ پہلا چاندی کا سکہ انھوں نے خود ڈالا تھا۔ شام تک ٹوکری سکّوں سے بھر گئی۔
جب اتنا سارا چندہ تحریک کو عطیہ کیا گیا تو یہ کہانی بھی مشہور ہو گئی۔ نہرو جی اس وقت کانگریس کے صدر تھے۔ انھوں نے دادا جی اور گاؤں والوں کی تعریف کرتے ہوئے خط لکھا جو تمھارے بڑے دادا کے گھر میں فریم کر کے دیوار پر لٹکا تھا۔
مجھے یاد ہے جب تم میرے بالوں میں اپنے ننھے ہاتھوں سے کنگھی کر رہی تھیں، میرے بڑے بھیا میرے پاس بیٹھے تھے کھاٹ پر اور یہ کہانی سنا رہے تھے اور کہانی ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ تم نے ضد کرنی شروع کر دی، چچا نہرو کا وہ خط طمھیں چاہیے۔ رو رو کر برا حال کر لیا۔ جب بڑے دادا نے کہا کہ تم جس دن کالج میں ٹیچر کی ملازمت کرو گی وہ خود چچا نہرو کا خط تمھیں لا کر دیں گے۔ اب تو وہ دنیا میں نہیں رہے، لیکن وہ خط میرے پاس دے گئے ہیں، تمھارے لیے میں نے چھپا کر رکھا ہے، جس دن ملازمت ملے گی میری گڑیا کو، اس دن وہ خط دوں گی تمھیں۔
سنا ہے اس حکومت نے دہی، لسّی اور چھاچھ پر بھی ٹیکس لگا دیا، کیا ہو گیا ہے میرے ملک کو۔ کوئی تحریک کیوں نہیں کرتا اب۔ کہاں تو نمک پر حکومت نے ٹیکس لگایا تو سارا ملک سڑکوں پر آ گیا اور کہاں چھاچھ پر ٹیکس لگ گیا، پھر بھی سب طرف سنّاٹا ہے۔
یہ کہانی بھی ضرور سنانا اپنی دوستوں کو۔ پتہ تو چلے کہ آزادی کیسے ملی ہے، کتنی قربانیاں دی ہیں آبا و اجداد نے، اور ہاں، یہ بھی بتانا کہ عدم تشدد میں کتنی طاقت تھی، انگریز کانپ جاتے تھے۔
اپنے کھانے پینے کا خیال رکھنا۔ مجھے تمھاری بڑی فکر رہتی ہے، محنت کرتے کرتے دبلی ہو گئی ہوگی میری بچی۔
ہاں، ایک بات کہوں، کسی لڑکے سے ’وہ والی دوستی‘ ہو جائے تو سب سے پہلے اپنی دادی ماں کو ہی بتانا۔ کسی سے ڈرنا مت، میں ہوں نہ۔
تمھاری دادی
پوتی کا خط
بہت پیار دادی ماں
آپ بھی حد کرتی ہیں۔ ارے پڑھائی سے چھٹیہ ملے تب ہوگی نہ کسی سے ’وہ والی دوستی‘۔ لیکن اگر ہوئی تو سب سے پہلے آپ کو ہی بتاؤں گی۔
ایک اور راز کی بات بتاؤں، دادی ماں آپ دادا اور بابو جی کو یہ مت بتانا کہ میں کسانوں کی تحریک میں بھی گئی تھی۔ مجھے گاندھی کے عدم تشدد اور ستیاگرہ کی یاد آ گئی۔ ایک طرف پولیس تھی، بندوق تانے ہوئے، سڑک پر کیلیں گاڑے ہوئے، زمین کھود ڈالی تھی انھوں نے، کٹیلے تار تھے، مانو ہندوستان-پاکستان کی سرحد ہو۔ بھیانک تھا جو کچھ میں نے دیکھا جب کسانوں پر لاٹھیاں برسیں اور ڈرون سے آنو گیس کی بارش ہوئی۔ تب بھی وہ اپنے مطالبات پر ڈٹے رہے اور آخر حکومت کو تین قانون رد کرنے پڑے۔ انھوں نے مودی کا سر جھکا دیا، اب اس تاناشاہ کو جھکانے کی ذمہ داری ہماری ہے۔
ہاں دادی ماں، آپ نے الیکٹورل بانڈ کے بارے میں سنا کیا؟ حکومت نے سرمایہ داروں کے گھر ای ڈی اور سی بی آئی بھیجی، ان سے تاوان لیا، کچھ کو ہزاروں کروڑ کے ٹھیکے دے دیے اور کچھ کو دوا بیچنے کی جھوٹ۔ رام دیو کی کورونل بیچنے تو کئی وزراء بھی گئے تھے۔ سپریم کورٹ نے جھاڑ لگائی، الیکٹورل بانڈ کو ناجائز قرار دیا تب بھی یہ بینک سے کہتے رہے الیکشن سے پہلے یہ مت بتانا کہ کس نے کتنا تاوان دیا۔ جب سپریم کورٹ کا ڈنڈا پڑا تو گھوٹالہ کھلا، ہزاروں کروڑ کا ہیر پھیر ہوا ہے۔
ہم ساری دوستوں نے فیصلہ لیا ہے کہ ہر ظلم کا بدلا اسی الیکشن میں لیں گے۔ ہمارا ووٹ گھوٹالوں کے خلاف ہوگا۔
آپ کی بے خوف بیٹی
دادی کا خط
نہیں بتاؤں گی کسی کو، بالکل نہیں بتاؤں گی کہ تم تحریک میں گئی تھی۔ اور تمھارے بھائی سے بھی کہہ دیا کہ یہ خط کسی کو مت دکھانا۔ سب تمھیں اب بھی وہی چھوٹی سی گڑیا ہی سمجھتے ہیں۔ بس تمھاری دادی کو پتہ ہے کہ اس کی گڑیا اب ایک شیرنی ہے، بے خوف اور آزاد، ظالم کا ہاتھ جھٹک دینے والی اور ہر ایک کی تکلیف میں ساتھ کھڑی ہو جانے والی۔ اب جب میری آنکھیں بند ہوں گی تو تمھارا چہرہ ہی سامنے ہوگا اور میں سکون سے آخرت کا سفر کروں گی اور وہاں بھی سب سے یہی کہوں گی کہ زمین پر میری ایک بیٹی ہے جو میرے ہی نہیں ہزاروں لاکھوں کے خوابوں کو پورا کرے گی۔ محبت اپنائیت اور عدم تشدد کو زندہ رکھے گی۔ میں تجھ میں زندہ رہوں گی میری شیرنی۔
کھانے پینے کا خیال رکھنا، مجھے فکر لگی رہتی ہے۔ روٹی کھاتے ہوئے سوچتی ہوں تم نے وہاں کچھ کھایا کہ نہیں۔
عام طور پر بور آ گیا ہے، ابھی ایک مہینہ اور، پوری ٹوکری بھر بھجواؤں گی۔ الیکشن میں بی جے پی کی شکست ہو جائے تو سب دوستوں کو کھلانا۔
تمھاری دادی
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔