پوتی کا خط دادی کے نام اور دادی کا جوابی خط (دوسری قسط)
’خوب دل لگا کر نوکری کے امتحان کی تیاری کر رہی ہوں۔ کیسے بھول سکتی ہوں، پاپا نے میری فیس کے لیے کھیت بیچا تو ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ مجھے معلوم ہے، ہر روز دعا کرتی ہوں کہ اس بار پیپر لیک نہ ہو‘
پوتی کا خط
پیاری دادی ماں!
میں خوب دل لگا کر نوکری کے امتحان کی تیاری کر رہی ہوں۔ کیسے بھول سکتی ہوں، پاپا نے میری فیس کے لیے کھیت بیچا تو ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ مجھے معلوم ہے، ہر روز دعا کرتی ہوں کہ اس بار پیپر لیک نہ ہو۔ لیکن دادی ماں ٹیچر کی نوکری کے لیے ہزاروں بے روزگار درخواست دے رہے ہیں۔ پی ایچ ڈی کر کے طلبا چپراسی کے لیے ایپلائی کر رہے ہیں۔ اور جنھیں ملازمت مل بھی رہی ہے انھیں آر ایس ایس کی سفارش کے بغیر نہیں۔ ہر نوکری پر لاکھوں کی رشوت چل رہی ہے۔ اس حکومت نے ہر سال دو کروڑ ملازمت دینے کا جھوٹا وعدہ کیا تھا، جو تھیں وہ بھی ہضم کر لیں۔ سرکاری جگہ خالی پڑی ہیں اور بھرتی کے نام پر ہر بار پیپر لیک۔ یہ پیر لیک بھی سازش ہے تاکہ ملازمت نہ دینی پڑے۔ نوجوان جائیں گے کہاں، گاؤں میں کام نہیں، پانچ دس ہزار میں پرائیویٹ نوکری کریں گے۔ ڈیلیوری بوائے کا کام، بارہ چودہ گھنٹے ڈیوٹی، آج بھرتی کل نکالے گئے والی نوکریاں۔
یہ بھی پڑھیں : پوتی کا خط دادی کے نام اور دادی کا جوابی خط
میں بھی کیا اپنا دُکھڑا لے کر بیٹھ گئی۔ میں ٹھیک ہوں اور اپنے کھانے پینے کا خیال رکھتی ہوں۔ ماں سے کہیے گا کڑھی چاول بنائیں، آپ کو پسند ہے نہ۔ اور ہاں، اگلے خط میں وہ باپو والی آگے کی کہانی لکھنا مت بھولیے گا، آپ نے بھی تو لاٹھیاں کھائی تھیں اس تحریک میں۔ میں نے سب دوستوں کو آپ کا خط سنایا تھا۔ سب باقی کی کہانی سننے کو بے چین ہیں۔
آپ کی پیاری گڑیا
دادی کا خط
میری کوئل جیسی بٹیا!
جب سے تم گئی ہو، گھر سونا ہو گیا ہے۔ میں اپنی ہر چیز اِدھر اُدھر رکھ کر بھول جایا کرتی تھی، تم ہی تو ڈھونڈ کر دیتی تھیں مجھے۔ اب یہ کام بھی تمھاری ماں کے اوپر آن پڑا ہے۔ میں دن بھر انھیں پریشان کرتی ہوں۔
ہاں، تو کہاں تک سنائی تھی میں نے کہانی، اور باتوں میں لگ گئی تو کہانی ادھوری رہ جائے گی۔
ہوا یوں کہ باپو نے کہہ تو دیا پر تمھارے دادا جی کے والد اور ماں جی بہت گھبرائے، کہیں نئی نویلی بہویں بھی تحری کیا کرتی ہیں؟ لیکن باپو کی بات بھلا کون ٹال سکتا تھا۔ اور وہی ہوا جو باپو نے کہا تھا۔ میں اور تمھارے دادا مظاہرہ میں گئے، لاٹھیاں برسیں، میں نے بھی دو چار کھائیں۔ پولیس والے میرے بال پکڑ کر سڑک پر گھسیٹتے رہے۔ وہ جو بڑے بازار کا چوک ہے نہ، وہیں بڑی مشکل سے چھوڑا۔ لوگ خونم خون ہو گئے، لیکن پوری تحریک عدم تشدد کی مثال تھی۔ تمھارے دادا کا ہاتھ بھی ٹوٹ گیا۔ ہم خواتین کا کام تھا کہ جو گرتا جائے، اسے سہارا دے کر اٹھائیں اور مرہم پٹی کریں۔ مجھے عدم تشدد کی طاقت پہلی بار پتہ چلی۔ فرنگی پولیس تھک گئی، لیکن لوگ ڈٹے رہے۔
اگلے دن انھوں نے سارے گاؤں کے گھر، جھگیاں-جھونپڑیاں توڑ دیں، برتن بھانڈے ضبط کر لیے، مانو پورے گاؤں پر بلڈوزر چلا دیا ہو۔ آج وہ حکومت ہوتی تو اسے بلڈوز سرکار ہی کہا جاتا۔ ہمارے گاؤں پر 10 ہزار روپے کا جرمانہ لگایا۔ کسی نے مخبری کی تھی، اس زمانے میں آر ایس ایس والے انگریزوں کی مخبری کیا کرتے تھے۔ کیا آج کل بھی اسی کام میں لگے ہیں۔
ضرور سنانا یہ واقعہ اپنی دوستوں کو۔ آج کل تو یہ لوگ نہ جانے کیا کیا جھوٹی کہانیاں پھیلا رہے ہیں۔
ہاں یاد آیا، باپو نے رات کو ایک گلاس گائے کا دودھ بھی پیا تھا، اسی بچھیا کی پرنانی کی بھی نانی کا جس کے گلے مل کر تم ہر بار جانے سے پہلے ضرور روتی ہو۔ بڑی نرم دل ہے میری بٹیا، کتنی جلدی آنسو آ جاتے ہیں۔ آؤ گی تو خود دیکھنا کتنے پیارے ہیں دونوں بچے۔
نیم اور پیپل پر نئے پتّے آ گئے ہیں۔ تمھارے بھائی نے توتے کو سکھا دیا ہے، دن بھر رٹتا رہتا ہے ’دیدی جلدی آؤ، مٹھو کو کھانا دو‘۔
کھانے پینے کا خیال رکھنا، تب ہی تو نوکری کی جنگ جیت پاؤ گی۔
تمھاری دادی
پوتی کا خط
میری پھول جیسی پیاری دادی ماں!
چاچو کا لمبا سا ٹیلی فون آیا تھا۔ دادی ماں یہ چاچو کو کیا ہو گیا ہے؟ ان کو بھی تو آپ نے بچپن سے غیر ملکی کپڑے جلانے، گھر میں کنوئیں کے پانی سے نمک بنانے کی کہانیاں سنائی ہوں گی۔ وہ دن بھر ٹی وی دیکھ کر کتنے بدل گئے ہیں۔ کہاں تو وہ انگریزوں کے استحصال، تحریک آزادی اور آئین کی کہانیاں سن کر بڑے ہوئے، گاندھی کے قتل پر آر ایس ایس سے کتنی نفرت تھی انھیں، کبھی شاخہ میں نہیں گئے ور کہاں اب مودی بھکت ہو گئے ہیں۔ نوٹ بندی میں آپ کا منگل سوتر بھی رہن رکھنا پڑا، انھیں یہ بھی یاد نہیں۔ پانچ کلو راشن کی بھیک پر خوش ہیں۔
دادا جی اور آپ نے ہمیشہ کہا برابری کا سماج بنانا ہے۔ اور چاچو مظاہرین نوجوانوں کو اَربن نکسل کہہ کر جیل بھیجنے والوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔ انھیں ٹکڑے ٹکڑے گینگ کہہ رہے ہیں۔
مجھے یاد ہے آپ نے اور دادا جی نے ہی تو مجھے تاناشاہ حکومت کے مطلب بتائے تھے، یہ ملک سب کا ہے سمجھایا تھا، عدم تشدد کا راستہ دکھایا تھا، تب تو چاچو بھی ان باتوں کو مانتے تھے۔ اب کیا ہو گیا! ہٹلر کی کہانیاں سنائی تھیں، یہ ملک سب کی مشترکہ وراثت ہے بتایا تھا، عدم تشدد کا راستہ سکھایا تھا۔ دادی ماں سمجھائیے نہ انھیں کہ اگر یہ پھر جیتے تو یا اڈانی رہے گا یا ہماری دو بیگھہ زمین۔
ان سے کہیے نہ کہ واٹس ایپ دیکھنا بند کر دیں، ورنہ کہاں تو کسانوں کو متحد کر رہے تھے، تحریک چلا رہے تھے اور کہاں ان کو غدارِ وطن اور خالصتانی کہہ رہے ہیں۔ مہنگائی آسمان چھو رہی ہے، ماں نے پھر لکڑی اور بھوسے کے چولہے پر کھانا پکانا شروع کر دیا، گیس کا سلنڈر بھروانے کے پیسے نہیں، کتنی خوش تھیں ماں جب گیس کا چولہا آیا تھا۔ جب لکڑی کے چولہے سے ان کا ہاتھ جلا تھا تو میں کتنا روئی تھی۔ اب پھر سلنڈر خالی پڑا ہے۔ اور چاچو کہہ رہے ہیں 10 سال میں ملک کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا اس مودی نے۔
چین اور پاکستان کو تو چھوڑیے، اب نیپال، بنگلہ دیش، سری لنکا اور بھوٹان بھی آنکھیں دِکھا رہے ہیں۔ مالدیپ نے تو ہمارے فوجی بھی باہر نکال دیے، اور بھکت چیخ رہے ہیں دنیا میں ملک کا وقار بڑھا ہے۔ وقار تو تب تھا جب باپو کو دیکھنے یورپ میں اور نہرو جی کو دیکھنے امریکہ میں لاکھوں لوگ امنڈ پڑتے تھے۔ اور آج جب یہاں میری دوست ایک وقت کھانا کھا کر چوبیس گھنٹے امتحان کی تیاری کرتی ہیں تو کیا ملک کا وقار بڑھ سکتا ہے۔ کیا آپ نے ایسے ملک کے خواب دیکھے تھے، ایسے ہی اچھے دنوں کے لیے قربانی دی تھی؟
رویش کمار ٹھیک کہتا ہے، چاچو واٹس ایپ انکل ہو گئے ہیں۔
دادی کا خط
میری پیاری لاڈلی بٹیا!
تمھارے خط سے تسلی ملی کہ تم اپنے کھانے پینے کا خیال رکھ رہی ہو۔
ہاں، درست کہا تم نے، تمھارے چاچو کا دماغ پلٹ گیا ہے، بہکی بہکی باتیں کرنے لگا ہے وہ۔ ایک دن جب میں نے اسے خوب کھری کھوٹی سنائی اور کہا کیوں میری ضعیفی خراب کر رہا ہے، کیا اسی لیے تیری پرورش کی تھی، پڑھایا تھا۔ یہی تہذیب دی تھی، دن بھر نفرت پھیلائے اور مودی مودی مودی کرتا رہے۔ کہنے لگا- ماں تم سمجھتی نہیں، زمانہ بدل گیا ہے۔ میں اس بار بی جے پی سے الیکشن لڑوں گا تو یہ سب کچھ کرنا ہی پڑے گا۔ اگر میں نے ہندو-مسلم فساد کرا دیا تو جیت یقینی ہے۔ میں نے کہا- نکل جا گھر سے اور مجھے شکل مت دکھانا۔ تب سے وہ گھر نہیں لوٹا۔ سنا ہے بی جے پی کے دفتر میں ہی رہتا ہے۔ اب اور دن بھر نفرت کی باتیں پھیلاتا ہے فون پر بھی۔ میں نے تو سوچ لیا ہے کہ میں نے ایک ہی بیٹا جنما تھا، دوسرا جنما ہی نہیں۔ گھروں کے اندر دراڑ ڈال دی، بیٹے کو ماں سے الگ کر دیا ان ناسپیٹوں نے، میں کبھی مودی کو معاف نہیں کروں گی۔
خیر چھوڑو اسے، اب اپنے چاچو کا فون مت اٹھانا۔ الیکشن نکل جائے تو شاید اس کا دماغ ٹھیک ہو۔
میں نے تمھارے باپو سے پیسے بھجوائے تھے، اسٹوو خرید لیا نہ، خود ہی کھانا بنایا کرو، باہر کے کھانے سے بیماریاں لگ جائیں گی۔ پھر علاج کے لیے اِدھر اُدھر پھرو۔ نہ بابا نہ، خود پکایا کرو۔
اپنا خیال رکھنا۔
تمھاری دادی
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔