پوتی کا خط دادی کے نام اور دادی کا جوابی خط
’’آپ کا خط ملتا ہے تو دل خوشی سے ناچنے لگتا ہے۔ مجھے معلوم ہے گھر میں پیسے نہیں ہیں، آپ کی آنکھوں کا آپریشن نہیں ہو پا رہا، کاش مجھے ملازمت مل جاتی تو میں آپ کو ہوائی جہاز سے دہلی بلا پاتی‘‘
پوتی کا خط
پیاری دادی ماں!
میرے یومِ پیدائش پر آپ کا خط ملا تو ایسا لگا کہ آپ نے دونوں ہاتھوں سے گال چھوئے اور پیشانی چوم لیا۔ آپ بھائی سے خط لکھوا کر بھیجتی رہا کیجیے۔ ہر بار خط پا کر میرے آنسو نکل آتے ہیں، خوشی کے آنسو۔ خوش قسمتی سے ابھی ڈاک خانے باقی ہیں، ورنہ 10 سال میں اس حکومت نے کیا کچھ نہیں فروخت کیا۔ کتنی محنت سے بنائے تھے اسٹیل کے کارخانے، ریل، ایئرپورٹ، خون پسینہ بہا کر زمین کے سینے سے کوئلہ نکالا تھا، تیل نکالا تھا، بجلی گھر بنائے تھے۔ آپ لوگوں نے محنت سے ملک کی تعمیر کی تھی، سب فروخت کر دیا۔ حتیٰ کہ جنگل بھی فروخت کر ڈالے اونے-پونے داموں میں۔ قبائلیوں کے گاؤں کے گاؤں اجاڑ دیے۔ لیکن اچھا ہوا ڈاک سروس نہیں فروخت نہیں ہوا، شاید کوئی خریدنے والا نہیں تھا۔ آپ کا خط ملتا ہے تو دل خوشی سے ناچنے لگتا ہے۔ مجھے معلوم ہے گھر میں پیسے نہیں ہیں، آپ کی آنکھوں کا آپریشن نہیں ہو پا رہا، کاش مجھے ملازمت مل جاتی تو میں آپ کو ہوائی جہاز سے دہلی بلا پاتی۔ موتیا بند کا آپریشن یہاں مفت ہوتا ہے۔ آپریشن ہو جاتا اور آپ کے ہاتھ کا لکھا خط پڑھتی تو ہر لفظ پر آنسو ٹپکتے اور میں خوشی سے ناچتی۔ آپ کی لکھائی کتنی خوبصورت ہے، جیسے موتی جڑے ہوں۔
***
دادی کا خط
میری پیاری گڑیا، میری لاڈو!
تم ہو نہ میری آنکھوں کی روشنی۔ موتیا بند تو اس عمر میں ہر کسی کو ہوتا ہے، میں کوئی انوکھی ہوں کیا؟ ضرور کرا دینا میری آنکھوں کا آپریشن جب نوکری لگ جائے۔ یہ سرکار بدلے گی تو پیپر بھی لیک نہیں ہوں گے۔ بس کچھ دن کی ہی تو بات ہے۔ ایک گانا تھا جو ہم گایا کرتے تھے ’چند روز اور میری جان‘، ظلم کی چھاؤں میں دم لینے پر مجبور ہیں ہم۔ مودی گیا تو تمھاری محنت ضرور کامیاب ہوگی۔
گانے سے یاد آیا... یہ ان دنوں کی بات ہے جب میرا گونا ہوا ہی تھا، تب شادی کچی عمر میں ہی ہو جاتی تھی۔ تمھارے دادا بھی کالج میں ہی تھے۔ ’انگریزو بھارت چھوڑو‘ تحریک چل رہی تھی، کود پڑے اس تحریک میں۔ مہاتما گاندھی، تب سب انھیں باپو ہی کہتے تھے، ہمارے گاؤں سے گزر رہے تھے۔ زمیندار کے گھر نہیں، ہماری جھونپڑی میں ٹھہرے۔ آس پاس کے سارے گاؤں سے ہزاروں کی بھیڑ اکٹھا ہو گئی۔ مرد بھی اور خواتین بھی ٹوٹ پڑ رہے تھے۔ گھر آنگن بھرا ہوا تھا اور باہر ہزاروں کی بھیڑ۔ جب شام کو کھانا لگا اور میں مکئی کی روٹی اور سرسوں کا ساگ لے کر گئی، باپو بول رہے تھے، دھیمی آواز میں رک رک کر، سب سن رہے تھے۔ میں نے باپو کو روٹی بڑھائی، بولتے بولتے وہ رک گئے، کہا ’بیٹا بس ایک روٹی‘۔ اور میرے سر پر ہاتھ رکھا۔ ’کل تم آگے آگے میرے ساتھ چلو گی۔ لاٹھی کھانے کو تیار ہو نہ؟‘ میں گھبرائی، بس سر ہلا دیا، بولنے کی ہمت ہی نہیں تھی۔ آواز گلے میں اٹک گئی۔ سب ایک دن خاموش۔ باپو نے پھر کہا ’اگر ملک کی نصف آبادی اس تاناشاہ سرکار سے لڑنے میں پیچھے رہ گئی تو یہ جنگ ہم کبھی نہیں جیت سکتے۔ کل جواہر بھی آ رہے ہیں اور آزاد بھی، وہ ہمیں گرفتار کر لیں گے، لیکن ستیاگرہ چلے گا، سرکار لاٹھیاں برسائے گی اور تمھارا کام ہوگا زخمیوں کی مرہم پٹی کرنا۔ اور ہم نے وہی کیا۔
تمھارے بھائی کو اسکول جانا ہے، تو باقی کہانی اگلے خط میں۔ اب دیر ہو رہی ہے، اسکول جاتے ہوئے یہ خط ڈالتا جائے گا۔
دل لگا کر تیاری کرنا۔ اپنے کھانے پینے کا خیال رکھنا اور دیکھو باہر کم نکلنا گرمی بہت ہو گئی ہے۔
تمھاری دادی
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔