’یہ سیبی چیف پر مزید ایک سنگین الزام ہے‘، بزنس اسٹینڈرڈ کی ایک رپورٹ پر جئے رام رمیش کا رد عمل

مارچ 2024 میں ختم ہونے والے مالی سال میں اگورا کمپنی کے ریکارڈ کے مطابق سیبی چیف کے پاس اب بھی اس فرم میں شیئر ہیں، اس لیے وہ غالباً فرم سے ہونے والے منافع میں حصہ دار تھیں۔

<div class="paragraphs"><p>جئے رام رمیش فائل فوٹو/ تصویر: آئی اے این ایس</p></div>

جئے رام رمیش فائل فوٹو/ تصویر: آئی اے این ایس

user

قومی آوازبیورو

ہنڈن برگ کی رپورٹ کے بعد سیبی چیئرپرسن مادھبی پوری بُچ کٹہرے میں کھڑی دکھائی دے ہی رہی تھیں، اب انگریزی اخبار ’بزنس اسٹینڈرڈ‘ کی ایک رپورٹ نے انھیں مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ اس رپورٹ میں اندیشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ سیبی چیف نے سیبی کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کسی دوسرے ذریعہ سے مالی منافع حاصل کیا۔ اس معاملے میں کانگریس جنرل سکریٹری جئے رام رمیش نے ان پر شدید حملہ بھی کیا ہے اور کہا ہے کہ ’’یہ سیبی چیف پر مزید ایک انتہائی سنگین الزام ہے، جسے حال ہی میں بزنس اسٹینڈرڈ میں شائع کیا گیا ہے۔‘‘

یہ رد عمل جئے رام رمیش نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر ظاہر کیا ہے۔ انھوں نے اس پوسٹ میں لکھا ہے کہ ’’سیبی کی 2008 کی پالیسی اس کے افسران کو فائدہ کا عہدہ حاصل کرنے اور/یا دیگر پروفیشنل سرگرمیوں سے تنخواہ یا پروفیشنل فیس لینے سے روکتی ہے۔ موجودہ سیبی چیف نے 2017 میں ریگولیٹری جوائن کیا تھا۔ مارچ 2022 میں انھیں اس کے اعلیٰ عہدہ پر مقرر کیا گیا۔ عوامی دستاویزات کے مطابق ان 7 سالوں میں ان کی کنسلٹنگ فرم ’اگورا ایڈوائزری پرائیویٹ لمیٹڈ‘ کی آمدنی 3.71 کروڑ روپے تھی۔ اس فرم میں بُچ کی 99 فیصد شراکت داری ہے۔‘‘


اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کانگریس لیڈر نے لکھا ہے کہ ’’چیئرپرسن نے اپنے بیان میں کہا کہ کنسلٹنسی فرمس کے بارے میں سیبی کو بتایا گیا تھا اور ان کے شوہر نے 2019 میں ’یونی لیور‘ سے سبکدوش ہونے کے بعد اپنے کنسلٹنگ کاروبار کے لیے ان فرمس کا استعمال کیا۔ لیکن مارچ 2024 کے ختم ہونے والی مالی سال میں کمپنی کے ریکارڈ کے مطابق سیبی چیئرپرسن کے پاس اب بھی کنسلٹنگ فرم کے شیئر ہیں۔ اس لیے وہ غالباً فرم سے ہونے والے منافع میں حصہ دار تھیں، جو کہ سیبی کی 2008 کی پالیسی کی خلاف ورزی ہے، جس کا کہ ہم نے پہلے تذکرہ کیا ہے۔‘‘

اس سے قبل جئے رام رمیش نے سوشل میڈیا پر ہی اڈانی مہاگھوٹالہ سے متلق ایک طویل پوسٹ ڈال کر کچھ اہم باتیں سامنے رکھی تھیں۔ اس پوسٹ میں انھوں نے لکھا تھا کہ ’’اڈانی مہاگھوٹالے میں مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) جانچ کا مطالبہ ہنڈن برگ ریسرچ کی رپورٹ میں کیے گئے انکشافات سے کہیں زیادہ آگے تک ہے۔ اڈانی گروپ سے جڑی بے ضابطگیاں اور غلط کام سیاسی معیشت کے ہر پہلو سے جڑے ہوئے ہیں۔ ہماری 100 سوالوں کی ’ہم اڈانی کے ہیں کون‘ سیریز میں ہم نے انھیں نشان زد کیا تھا۔‘‘


اس پوسٹ میں جئے رام رمیش نے مبینہ اڈانی مہاگھوٹالہ کے کچھ اہم باتیں اور اس سے جڑے واقعات بھی پیش کیے تھے جو اس طرح ہیں:

  • ایئرپورٹس، بندرگاہ، سیمنٹ اور دیگر اہم شعبوں میں اڈانی کی بالادستی یقینی بنانے کے لیے ہندوستان کی جانچ ایجنسیوں کا غلط استعمال۔

  • ہندوستان کے وقار کو طاق پر رکھ کر پڑوس میں اڈانی انٹرپرائزیز کی ضرورتوں کے لیے ہندوستان کی خارجہ پالیسی کے مفادات کے ساتھ سمجھوتہ کرنا۔

  • اسرائیل کے ساتھ ہندوستان کے سفارتی تعلقات کو ایک ہی کمپنی، اڈانی کو سونپ دینا۔

  • کوئلہ اور بجلی سامانوں پر خطیر رقم خرچ کرنا، جس نے نہ صرف منی لانڈرنگ اور بے تحاشہ منافع کو فروغ دیا ہے بلکہ عام لوگوں کے بجلی کے بلوں میں بھی اضافہ کیا ہے۔

  • اڈانی گروپ کو عوامی جائیدادوں پر بے قاعدگی کے ساتھ لیز کی توسیع۔

  • عوامی سیکٹر کے بینکوں، خاص طور سے ایس بی آئی کے ذریعہ اہم پروجیکٹ کو قرض فراہم کرنے میں حیرت انگیز جانبداری کا مظاہرہ۔ اس میں مندرا میں اڈانی کاپر پلانٹ، نوی ممبئی میں ایئرپورٹ اور یوپی ایکسپریس وے پروجیکٹ شامل ہیں۔

اس پوسٹ کے آخر میں جئے رام رمیش نے لکھا ہے کہ ’’اوپر جتنے بھی معاملے ہیں، ان میں سے کسی کا بھی تذکرہ ہنڈن برگ کے الزامات میں نہیں ہے۔ اس کے الزامات کیپٹل مارکیٹ سے متعلق معاملوں تک ہی محدود ہیں- اسٹاک ہیرا پھیری، اکاؤنٹنگ میں دھوکہ دہی اور ریگولیٹری ایجنسیوں میں مفادات کا تصادم۔ ہنڈن برگ کے انکشافات تو محض برف کے پہاڑ کی چوٹی کا چھوٹا سا حصہ بھر ہے۔ مودانی مہاگھوٹالے کی پوری طرح سے جانچ اور انکشاف صرف ایک جے پی سی ہی کر سکتی ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔