اروند کیجریوال کی گرفتاری کو چیلنج کرنے والی عرضداشت پر سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ رکھا
سپریم کورٹ نے ای ڈی کو فائلیں جمع کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ہم منیش سسودیا کو ضمانت دینے سے انکار کے فیصلے کے بعد اور کیجریوال کی گرفتاری سے قبل ریکارڈ کیے گئے گواہوں کے بیانات دیکھنا چاہتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے جمعہ (17 مئی) کو دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال کی ای ڈی کے ذریعے آبکاری پالیسی کے تحت گرفتاری کو چیلنج کرنے والی عرضداشت پر اپنا فیصلہ محفوظ رکھ لیا ہے۔ جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس دیپانکر دتّہ کی بنچ نے فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے اروند کیجریوال کو ضمانت کے لیے نچلی عدالت سے رجوع کرنے کی چھوٹ دی ہے۔
سپریم کورٹ نے ای ڈی کو بھی فائلیں جمع کرنے کا حکم دیا اور کہا کہ ہم منیش سسودیا کو ضمانت دینے سے انکار کرنے کے فیصلے کے بعد اور کیجریوال کی گرفتاری سے قبل ریکارڈ کیے گئے گواہوں کے بیانات دیکھنا چاہتے ہیں۔ عدالت نے فریقین کو ایک ہفتے میں تحریری دلائل دینے کے لیے بھی کہا ہے۔ سماعت کے دوران ایڈیشنل سالیسٹر جنرل ایس وی راجو نے بنچ کو بتایا کہ حوالہ لین دین کے بارے میں مزید شواہد سامنے آئے ہیں۔ اس پر بنچ نے پوچھا کہ کیا گرفتاری کے لیے تحریری طور پر درج وجوہات پر بھروسہ کرنے کے لیے ان کا ذکر کیا گیا ہے؟ سوال کا جواب دیتے ہوئے اے ایس جی نے کہا کہ ہم نے یقین کرنے کی کوئی وجہ نہیں بتائی ہے۔
بنچ نے سوال کیا کہ آپ یقین کرنے کی وجوہات کیسے نہیں دیں گے؟ وہ ان وجوہات کو کیسے چیلنج کریں گے؟ اے ایس جی راجو نے کہا کہ اگر گرفتاری سے پہلے ملزم کو مواد فراہم کیا جاتا ہے تو اس سے تفتیش میں رکاوٹ پڑ سکتی ہے۔ اس پر جسٹس کھنہ نے کہا کہ ایک تفتیش کار کے طور پر اسے اس وقت تک گرفتار نہیں کیا جانا چاہیے جب تک کہ اس کے پاس یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی مواد نہ ہو کہ وہ قصوروار ہے۔ اے ایس جی نے جواب دیا کہ بری ہونے کے مرحلے پر فوجداری قانون اور عمومی انتظامی قانون میں فرق ہے، عدالت استغاثہ کے ذریعہ پیش کردہ مواد کے علاوہ کسی اور مواد کو نہیں دیکھ سکتی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر اس پٹیشن پر غور کیا جائے تو اس سے کنفیوژن کا ایک تابوت کھل جائے گا۔ ہر بار کوئی نہ کوئی ایسی درخواست لے کر آئے گا۔
وزیر اعلیٰ کیجریوال کی جانب سے پیش ہوئے ایڈووکیٹ ابھیشک منوسنگھوی نےکہا کہ گرفتاری کی بنیاد پر کوئی ثبوت نہیں ہے۔ ای ڈی حکام نے صرف ایک بیان پر بھروسہ کیا اور دیگر بیانات کو نظر انداز کیا۔ انہوں نے 1.5 سال سے زیادہ تفتیش کی۔ کیجریوال کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ گرفتاری ان ثبوتوں کی بنیاد پر کی گئی جو ای ڈی کے پاس جولائی-اگست 2023 میں موجود تھے۔ اس کی بنیاد پر گرفتاری کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ سنگھوی نے ملزم سے سرکاری گواہ بنے سرتھ ریڈی کے بیان کا بھی حوالہ دیا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔