آر ایس ایس کا بی جے پی پر سخت حملہ، کہا- ’لیڈر سیلفیاں لیتے رہے اور پارٹی الیکشن ہار گئی!‘

سنگھ نے لکھا ہے کہ جب لیڈر عوام کی پہنچ سے باہر تھے، کارکنوں کو ان سے ملنے کا وقت نہیں مل رہا تھا اور وہ صرف فیس بک اور ٹوئٹر پر انگلیاں چلا رہے تھے، پھر وہ الیکشن کیسے جیت سکتے تھے

<div class="paragraphs"><p>سوشل میڈیا</p></div>

سوشل میڈیا

user

قومی آوازبیورو

راشٹریہ سویم سنگھ (آر ایس ایس) کے ترجمان ’آرگنائزر‘ نے لوک سبھا انتخابات میں اپنے بل بوتے پر اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہونے پر بی جے پی پر تنقید کی ہے۔ سنگھ نے لکھا ہے کہ ایسے نتائج بی جے پی لیڈروں اور کارکنوں کی زیادہ خود اعتمادی کی وجہ سے آئے ہیں۔ آرگنائزر میں شائع مضمون میں رتن شاردا نے کہا ہے کہ عوام اور عام لوگوں کی آواز سننے کے بجائے بی جے پی کارکن وزیر اعظم نریندر مودی کی مدح سرائی کی چمک سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔

مضمون کے آغاز میں سنگھ نے لکھا ہے کہ بھلے ہی مرکز میں تیسری بار مودی حکومت بنی ہے لیکن اس بار بی جے پی اپنے بل بوتے پر مکمل اکثریت کے ساتھ حکومت بنانے میں ناکام رہی ہے۔ مضمون میں کہا گیا ہے کہ اتر پردیش سمیت کئی ریاستوں میں پارٹی کی کارکردگی انتہائی خراب اور مایوس کن رہی۔ سنگھ نے کہا کہ انتخابی نتائج بی جے پی کے لیے زمینی حقیقت کو سمجھنے اور غور و خوض کرنے کا اشارہ ہیں۔

آر ایس ایس نے کہا ہے کہ بی جے پی لیڈر انتخابی حمایت کے لیے 'سوم سیوکوں' تک پہنچے ہی نہیں۔ یاد رہے کہ سنگھ اپنے کارکنوں کو سوم سیوک کہتا ہے۔ اس نے کہا ہے کہ بی جے پی نے ان کارکنوں پر کوئی توجہ نہیں دی جو نچلی سطح پر کام کر رہے تھے۔ سنگھ نے انتہائی تنقیدی انداز میں کہا کہ بی جے پی نے ان کارکنوں پر اعتماد کا اظہار کیا جو 'سیلفیوں' کی مدد سے مہم چلا رہے تھے۔ سنگھ کے رکن رتن شاردا مضمون میں مزید لکھتے ہیں کہ انتخابی نتائج بی جے پی کو آئینہ دکھانے والے ہیں۔

سنگھ نے مہاراشٹر کو لے کر سخت تبصرہ کیا ہے۔ رتن شاردا نے مضمون میں لکھا ہے کہ بی جے پی مہاراشٹر کی سیاست میں بہت زیادہ سرگرم ہو گئی اور وہاں غیر ضروری سیاست کی گئی۔ اجیت پوار دھڑے کی این سی پی کے مہاراشٹر میں بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملانے کی وجہ سے بی جے پی کارکنوں میں غصہ ہے، جسے پارٹی نے تسلیم نہیں کیا۔ رتن شاردا کا کہنا ہے کہ این سی پی کے ساتھ آنے کی وجہ سے مہاراشٹر میں بی جے پی کی برانڈ ویلیو میں نمایاں کمی آئی ہے۔


رتن شاردا نے اگرچہ کسی لیڈر کا نام نہیں لیا لیکن لکھا کہ ایسے کئی سابق کانگریسی لیڈروں کو بی جے پی میں شامل کر لیا گیا، جنہوں نے بھگوا دہشت گردی کا نعرہ لگایا تھا۔ شاردا لکھتے ہیں کہ بی جے پی میں ایسے کئی لیڈر شامل تھے جنہوں نے 26-11 کے ممبئی حملوں کو آر ایس ایس کی سازش قرار دیا تھا۔

خیال رہے کہ مہاراشٹر کے حالیہ انتخابات میں بی جے پی کی کارکردگی سب سے خراب رہی ہے۔ 2019 میں بی جے پی نے 48 میں سے 23 سیٹیں جیتی تھیں لیکن اس بار وہ صرف 9 سیٹیں جیت سکی۔ اس کے علاوہ شندے دھڑے کی شیوسینا 7 اور اجیت پوار کی این سی پی صرف ایک سیٹ ہی جیت پائی۔

سنگھ نے مضمون میں نشاندہی کی گئی ہے کہ بی جے پی ووٹروں تک صحیح طریقے سے پہنچنے میں ناکام رہی ہے۔ رتن شاردا مضمون میں مزید لکھتے ہیں کہ پارٹی کے ایجنڈے کی وضاحت کرنا، پارٹی لٹریچر اور ووٹر کارڈ تقسیم کرنا پارٹی کی ذمہ داری ہے۔

رتن شاردا لکھتے ہیں کہ بی جے پی کارکنان اور پارٹی کے بہت سے لیڈر ٹھیک سے نہیں سمجھ سکے کہ ’400 پار‘ کا نعرہ دے کر مودی نے کارکنوں اور لیڈروں کے لیے ایک ہدف مقرر کیا تھا اور اپوزیشن کو بڑا چیلنج دیا تھا۔ لیکن اہداف محنت سے حاصل ہوتے ہیں نہ کہ سیلفی لینے اور سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے سے۔ انہوں نے لکھا کہ ان انتخابی نتائج سے اور بھی بہت سے سبق ہیں جن پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔


رتن شاردا نے یہ وضاحت بھی کی ہے کہ سنگھ بی جے پی کے لیے کام نہیں کرتا، یہ بی جے پی کے لیے فیلڈ فورس نہیں ہے۔ بی جے پی دنیا کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے اور اس کے اپنے کارکنوں کی فوج ہے۔ ایسے میں پارٹی کے ایجنڈے کو عوام تک پہنچانا اور ووٹروں کی مدد کرنا ان کا کام ہے۔ شاردا نے یاد دلایا کہ 1973 سے 1977 کے عرصے کے علاوہ آر ایس ایس نے کبھی بھی براہ راست مداخلت نہیں کی اور نہ ہی کسی سیاست میں حصہ لیا۔ انہوں نے کہا کہ 2014 میں سنگھ نے 100 فیصد ووٹنگ کا مطالبہ کیا تھا، یہی وجہ ہے کہ اس دوران بڑی تعداد میں ووٹروں نے ووٹ ڈالے تھے اور اقتدار کی تبدیلی ہوئی تھی۔ اس بار بھی سنگھ نے محلوں، سوسائٹیوں اور دفاتر کی سطح پر چھوٹی چھوٹی میٹنگیں کیں اور لوگوں کو ووٹ ڈالنے کی ترغیب دی۔ اس کے علاوہ، سنگھ نے قوم کی تعمیر میں حصہ لینے کے لیے بھی لوگوں کو بیدار کیا۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ایسی 1,20,000 میٹنگیں صرف دہلی میں ہوئیں۔

رتن شاردا نے لکھا ہے کہ اس کے علاوہ سوم سیوکوں نے انتخابی کاموں میں بی جے پی کارکنوں کی مدد بھی کی جس میں مقامی لیڈروں تک پہنچنا بھی شامل تھا۔ لیکن یہ کام بڑے پیمانے پر نہیں ہوا۔ انہوں نے لکھا ہے کہ بی جے پی کارکن 'آئے گا تو مودی ہی‘ اور ’اب کی بار 400 پار‘ کے نعروں میں الجھے رہے۔ پرانے اور سرشار کارکنوں کو نظر انداز کیا گیا اور جب خود بی جے پی کارکن ہی سنگھ کے سوم سیوکوں کے پاس نہیں جا رہے تھے تو پھر سوم سیوک بھی ان کے پاس کیوں جاتے؟

مضمون میں امیدواروں کے انتخاب کے حوالے سے بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ رتن شاردا لکھتے ہیں کہ یہ مفروضہ کہ مودی اکیلے تمام 543 سیٹوں پر الیکشن لڑ رہے ہیں، انتخابی شکست کی بنیاد بن گئی۔ بی جے پی نے پارٹی میں پرانے اور جیتنے والے امیدواروں کے بجائے نئے لوگوں کو ٹکٹ دیا جس سے کافی نقصان ہوا۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً 25 فیصد امیدوار ایسے تھے جنہوں نے دوسری پارٹیاں چھوڑ دی تھیں۔ ہماچل میں بغاوت کا سامنا کرنے والی بی جے پی کے لیے اس طرح کا موقف اپنانا حیران کن تھا۔

سنگھ نے لکھا ہے کہ جب لیڈر عوام کی پہنچ سے باہر تھے، کارکنوں کو ان سے ملنے کا وقت نہیں مل رہا تھا اور وہ صرف فیس بک اور ٹوئٹر پر انگلیاں چلا رہے تھے، پھر وہ الیکشن کیسے جیت سکتے تھے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔