ریا-کنگنا تو مہرے ہیں، جنگ مودی اور ٹھاکرے کے درمیان ہے
ریا چکرورتی اور کنگنا رناوت کی حیثیت محض چینٹیوں جیسی ہے جو دو ہاتھیوں کی لڑائی میں کچل دی گئیں۔ ریا کو اب کھلے طور پر شیوسینا کی حمایت حاصل ہے جب کہ اس وقت کنگنا رناوت نریندر مودی کے دل کی ٹھنڈک ہیں۔
اردو میں مثال ہے کہ 'جب دو ہاتھی لڑتے ہیں تو چینٹیاں مرتی ہی ہیں۔' ممبئی میں کل سے آج تک جو ڈرامہ آپ نے دیکھا، وہ دراصل اسی مثال کا مصداق ہے۔ کیونکہ سوشانت سنگھ راجپوت کی آڑ میں ایک سیاسی جنگ چل رہی ہے جو دراصل نریندر مودی اور ادھو ٹھاکرے کے درمیان ہو رہی ہے۔ اس جنگ میں ریا چکرورتی اور کنگنا رناوت کی حیثیت محض چینٹیوں جیسی ہے جو دو ہاتھیوں کی لڑائی میں کچل دی گئیں۔ ریا کو اب کھلے طور پر شیوسینا کی حمایت حاصل ہے جب کہ اس وقت کنگنا رناوت نریندر مودی کے دل کی ٹھنڈک ہیں۔
دراصل اس جنگ کی شروعات بی جے پی کی جانب سے ہوئی۔ راجپوت کی موت کے فوراً بعد بی جے پی کو محسوس ہوا کہ اس کو بہار چناؤ میں ٹھاکروں کی عزت کا معاملہ بنایا جا سکتا ہے۔ پھر جلد ہی ادھو ٹھاکرے کے بیٹے آدتیہ ٹھاکرے کا نام بھی ریا چکرورتی کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔ غالباً سابق مہاراشٹر وزیر اعلیٰ دیویندر فڑنویس کو محسوس ہوا کہ وہ آدتیہ ٹھاکرے کو ڈرگ مافیا سے جوڑ کر ادھو کو بدنام کر سکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہمارے ٹی وی اینکر اور اس کے مالکان تو ان دنوں بکاؤ ہیں ہی، چنانچہ پہلے ان کو بھونکنے کے لیے لگا دیا گیا۔
ان اینکروں کا وہی کام تھا جو کسی جنگ کے شروع ہونے سے قبل طبل بجا کر جنگ کا ماحول تیار کرنے والے کا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان کو طبل بجانے کے لیے ہاتھ میں کچھ چاہیے تھا۔ ریا چکرورتی اور کنگنا رناوت کا استعمال اسی کام کے لیے کیا گیا۔ آخر جب طبل جنگ بجتے بجتے اس کی لَے اپنے عروج پر پہنچ گئی تو پکڑ دھکڑ شروع ہوئی۔ پہلے ریا پر ہاتھ ڈالا مودی کے غلاموں نے۔ اس کا جواب ایک دن کے اندر شیوسینا نے کنگنا کا ممبئی کا مکان گرا کر دیا۔
پہلے ریا کے گھر والے روئے۔ جب کنگنا کا گھر گرا تو وہ آنسو پوچھنے ممبئی ہائی کورٹ پہنچیں۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ ان دنوں عدالت میں 'مودی بھکتوں' کو فوراً 'انصاف' ملتا ہے۔ سو ممبئی ہائی کورٹ نے منٹوں میں ممبئی میونسپلٹی کا کام روک دیا۔
اب آپ پوچھیں گے کہ آخر نریندر مودی کا اس میں کیا لینا دینا! تو جناب بہار الیکشن کی بات کا ذکر پہلے ہو چکا۔ وہاں کی بی جے پی اور نتیش بابو دونوں سوشانت سنگھ کے لیے انصاف مانگ رہے ہیں۔ اس سلسلے میں پٹنہ اور دیگر بہاری شہروں میں بی جے پی اور جے ڈی (یو) نے الیکشن لگوا دیے۔ تو سب سے پہلے تو بہار چناؤ میں راجپوت کی موت کو بی جے پی دوہنا چاہتی ہے۔ پھر آدتیہ کو ڈرگ سے جوڑ کر ادھو ٹھاکرے کو بدنام کرنے کی منشا ہے۔ بھلا مہاراشٹر اور ممبئی جیسے دولت مند شہر میں غیر بی جے پی سرکار چلتی رہے اور مودی چین کی نیند سوتے رہیں، یہ ممکن ہی نہیں۔ اس لیے سوشانت کے ذریعہ ایک پنت دو کاج والا معاملہ مودی کے لیے ہے۔
پھر جناب مودی حکومت کے برے دن ہیں۔ ملک کی معیشت تباہ و برباد ہو چکی ہے۔ سوائے چار چھ سرمایہ داروں کے سارے ملک کو مودی نے فقیر بنا دیا ہے۔ ایسے میں عوام اگر جاگ گئی تو سڑکوں پر آگ برسے گی۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ٹی وی اور خبروں میں ملک کے معاشی حالات کے بجائے کوئی تماشہ چلتا رہے۔ ارنب گوسوامی اور راجدیپ سردیسائی نے ریا اور سوشانت معاملے کو ایک بہترین ٹی وی سیریل بنا دیا ہے۔ یہ سیریل روز شام عوام کو افیون کی ایک گولی کھلا دیتا ہے، اور دوسرے روز صبح سے رات تک ہر کوئی سوشانت، ریا، کنگنا کرتا رہتا ہے۔ نہ کہیں ملک کی معاشی تباہی اور نہ ہی چین کی دراندازی کا ذکر ہوتا ہے۔ اس سے بڑی کام کی بات تو کچھ اور مودی کے لیے ہو نہیں سکتی۔
یہی سبب ہے کہ اب ریا-کنگنا سیریل اپنے عروج پر ہے۔ اگلے ہفتے پارلیمنٹ کا سیشن شروع ہونے والا ہے۔ وہاں اپوزیشن کورونا کی بڑھتی وبا، ملک کی معاشی بدحالی اور چینی فوج کی دراندازی کا معاملہ زور و شور سے اٹھانے والی ہے۔ اب مودی جی اپنے 'گودی میڈیا' کی مدد سے بخوبی عوام کا دھیان ریا اور کنگنا میں لگائے رکھیں گے۔ اس لیے سوشانت سیریل کے نئے ایپی سوڈ کے لیے تیار رہیے اور اس تماشے میں جنگ کے اصل کمانڈروں کو بھولے رہیے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 09 Sep 2020, 9:29 PM