’کوئی دیوتا... اور پھر بھگوان بننا چاہتا ہے‘، کیا موہن بھاگوت نے نریندر مودی کو بنایا ہدف تنقید!
آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت کے اس بیان سے ہنگامہ برپا ہو گیا ہے کہ کوئی خود کو دیوتا اور پھر بھگوان ماننے لگا ہے، کہا جا رہا ہے کہ بھاگوت نے اس بیان کے ذریعہ پی ایم مودی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت کے ایک بیان پر تلخ تبصرے سامنے آ رہے ہیں۔ موہن بھاگوت نے جمعرات کو جھارکھنڈ کے بشنوپور میں ہوئے ایک پروگرام کے دوران کہا کہ ’’کچھ لوگ سپرمین بننا چاہتے ہیں، دیوتا... بھگوان بننا چاہتے ہیں۔‘‘ موہن بھاگوت کے اس بیان کو وزیر اعظم نریندر مودی پر حملہ تصور کیا جا رہا ہے۔
دراصل بھاگوت نے اپنی تقریر کے دوران کہا کہ ’’کیا ترقی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے... جب ہم اپنے ہدف تک پہنچتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ اب بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے... ایک شخص سپرمین بننا چاہتا ہے، پھر ایک دیو اور پھر بھگوان... لیکن بھگوان کہتا ہے کہ وہ تو پوری دنیا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ اس سے آگے بھی کچھ ہے کہ نہیں۔ اندرونی اور باہری دونوں ہی طرح کی ترقی کی کوئی حد نہیں ہے۔ یہ ایک ہمیشہ چلنے والا عمل ہے۔ بہت کچھ کیا جا چکا ہے، لیکن اب بھی بہت کچھ باقی ہے۔‘‘
موہن بھاگوت کے اس بیان کو سیدھے طور پر پی ایم مودی کے خلاف حملہ تصور کیا جا رہا ہے۔ ایسا اس لیے بھی کہا جا رہا ہے کیونکہ بی جے پی میں اس وقت کئی سطح پر آپسی چپقلش کی خبریں آ رہی ہیں، جن میں سیاسی طور پر اتر پردیش اہمیت کا حامل ہے۔ بھاگوت کے بیان پر کانگریس کمیونکیشن ڈپارٹمنٹ کے چیف جئے رام رمیش نے اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’مجھے یقین ہے خود ساختہ نان بایولوجیکل وزیر اعظم کو اس تازہ اگنی میزائل کی خبر مل گئی ہوگی، جسے ناگپور نے جھارکھنڈ سے لوک کلیان مارگ کو ہدف بنا کر داغا ہے۔‘‘
واضح رہے کہ لوک سبھا انتخابات کی تشہیر کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی نے ’نیوز18‘ نیوز چینل کے ساتھ انٹرویو میں کہا تھا کہ ’’جب تک میری ماں (زندہ) تھی، تب تک مجھے لگتا تھا کہ میں بایولوجیکل پیدا ہوا ہوں۔ لیکن ان کے جانے (موت) کے بعد میں سمجھ گیا ہوں کہ بھگوان نے مجھے بھیجا ہے۔ یہ توانائی ایک بایولوجیکل باڈی سے نہیں آ سکتی ہے، بلکہ اسے بھگوان نے دیا ہے۔ میں جب بھی کچھ کرتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ بھگوان مجھے ایسا کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں۔‘‘ اس طرح کے بیانات کے باوجود لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کو اپنی طاقت پر حکومت تشکیل دینے جتنی سیٹیں نہیں مل سکیں۔ گزشتہ لوک سبھا میں اسے 303 سیٹیں حاصل ہوئی تھیں، لیکن 2024 کے لوک سبھا انتخاب میں یہ سیٹیں گھٹ کر 240 رہ گئیں۔
انتخابی نتائج برآمد ہونے کے بعد موہن بھاگوت کا ایک بیان سامنے آیا تھا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ’’ایک سچا خادم مغرور نہیں ہو سکتا۔‘‘ تلسی کے لکھے رام چرت مانس کا ایک دوہا سناتے ہوئے بھاگوت نے کہا تھا کہ ’’سب نر کرہیں، پرسپر پریتی...‘‘۔ ساتھ ہی انھوں نے کہا ’’جو عمل کرتا ہے، لیکن عمل میں ملوث نہیں ہوتا، اس میں تکبر نہیں ہوتا، وہی خادم کہلانے کا حقدار ہوتا ہے۔‘‘ موہن بھاگوت نے اس وقت یہ بھی کہا تھا کہ بی جے پی کی تشہیر میں اخلاقیات اور صبر دونوں کی کمی تھی۔ انھوں نے زور دے کر کہا تھا کہ اپوزیشن پارٹیوں کو مخالف (یا دشمن) نہیں بلکہ حریف یا اپوزیشن سمجھنا چاہیے۔ حالانکہ بعد میں آر ایس ایس نے صفائی دی تھی کہ موہن بھاگوت کے بیان میں نشانے پر نریندر مودی یا بی جے پی نہیں تھے۔ پھر بھی آر ایس ایس کے ترجمان کی شکل میں مشہور رسالہ ’آرگنائزر‘ میں شائع مضامین سے واضح ہو گیا تھا کہ بھاگوت کا اشارہ کس کی طرف تھا۔
یہاں یہ معاملہ بھی دلچسپ ہے کہ بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ بی جے پی اس حالت میں پہنچ چکی ہے کہ اسے آر ایس ایس کی ضرورت نہیں ہے۔ آر ایس ایس نظریات کے حامی رتن شاردا نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ بی جے پی کارکن سیلفی لینے اور سوشل میڈیا پوسٹ کرنے میں لگے رہے، جبکہ ہدف حاصل کرنے کے لیے سخت محنت کرنی پڑتی ہے۔ انھوں نے یہ بھی لکھا تھا کہ ’’وہ تو اپنے ہی بلبلے سے خوش تھے، مودی جی خوشنما ماحول میں لطف اندوز ہو رہے تھے، انھیں سڑکوں پر لوگوں کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔‘‘ انھوں نے یہاں تک کہا تھا کہ مودی جی ہی سبھی سیٹوں پر لڑ رہے ہیں اس کا محدود اثر ہی ہوا۔
علاوہ ازیں حال ہی میں آر ایس ایس سے منسلک مراٹھی زبان کے رسالہ ’وویک‘ میں کہا گیا کہ آر ایس ایس اور بی جے پی لیڈروں کے درمیان بات چیت کی کمی ہے۔ رسالہ نے مہاراشٹر میں بی جے پی کی انتخابی کارکردگی کے لیے اجیت پوار کی این سی پی کے ساتھ اتحاد کو قصوروار ٹھہرایا ہے۔ ویسے یہ پہلا موقع نہیں ہے جب آر ایس ایس اور اس سے منسلک اداروں نے پی ایم مودی یا بی جے پی کی تنقید کی ہے۔ لوک سبھا انتخاب کے نتائج برآمد ہونے کے بعد سے لگاتار اس طرح کی خبریں آ رہی ہیں کہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے درمیان سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔