’ایک ملک، ایک انتخاب‘ کی اہم سفارشات خامیوں سے پُر، ووٹرس کو ہوگی پریشانی: ایس وائی قریشی

سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی نے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ کچھ ہی مہینوں کے وقفہ پر الگ الگ انتخاب کرانے سے بڑے لاجسٹک چیلنجز سامنے آئیں گے اور ووٹرس کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

<div class="paragraphs"><p>ایس وائی قریشی / آئی اے این ایس</p></div>

ایس وائی قریشی / آئی اے این ایس

user

قومی آواز بیورو

سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی نے ’ایک ملک، ایک انتخاب‘ کو لے کر کچھ ایسے اندیشے ظاہر کیے ہیں جو بہت اہم ہیں۔ انھوں نے اس کی عملیت اور اس کے ممکنہ اثرات پر فکر ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو سفارشات پیش کی گئی ہیں، وہ خامیوں سے پُر ہیں۔ انھوں نے اس معاملے میں پارلیمنٹ کے اندر بحث کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ بغیر پارلیمانی بحث کے خامیوں کو دور نہیں کیا جا سکتا۔

واضح رہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی صدارت میں مرکزی کابینہ کی ہوئی میٹنگ کے دوران بدھ کے روز کوود کمیٹی کی سفارشات کے مطابق ’ایک ملک، ایک انتخاب‘ کی تجویز کو منظوری دے دی گئی۔ سابق صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کی صدارت والی اس کمیٹی نے پہلے قدم کی شکل میں لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے لیے ایک ساتھ انتخاب کرانے، اور پھر اس کے بعد 100 دن کے اندر مقامی بلدیاتی انتخابات کرانے کی سفارش کی ہے۔


’ایک ملک، ایک انتخاب‘ پر بنی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ اس تجویز سے متعلق موصول 21558 مشوروں میں 80 فیصد سے زائد مشورے حمایت پر مبنی ہیں۔ حالانکہ ایس وائی قریشی نے اس رپورٹ میں کئی موجود کئی اہم سفارشات کو خامیوں سے بھرا ہوا بتا دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک ساتھ ہونے والے انتخابات میں پنچایت انتخاب باہر ہو جائیں گے، جبکہ پنچایت میں ہی بڑی تعداد میں مقامی منتخب افسران ہوتے ہیں۔

خبر رساں ایجنسی ’پی ٹی آئی‘ کے ساتھ بات چیت کے دوران قریشی نے بتایا کہ ’’مقامی سطح پر 30 لاکھ سے زائد منتخب نمائندوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک ساتھ انتخاب کرانے کو لے کر پورے ملک میں ہلچل والی حالت بنائی جا رہی ہے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ کچھ ہی مہینوں کے وقفہ پر الگ الگ انتخاب کرانے سے بڑے لاجسٹک چیلنجز سامنے آئیں گے اور ووٹرس کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کووند کمیٹی رپورٹ میں مشورہ دیا گیا ہے کہ پنچایت انتخاب 100 دنوں کے اندر الگ سے ہوں گے، اس مشورہ کے بارے میں سابق چیف الیکشن کمشنر کا کہنا ہے کہ یہ ایک ساتھ انتخابات کے بنیادی عنصر کے برعکس ہے۔


قابل ذکر ہے کہ انتخابی کمیشن نے اشارہ دیا ہے کہ اسے ایک ساتھ انتخابات کرانے کے لیے موجودہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں (ای وی ایم) اور ووٹر ویریفائیڈ پیپر آڈٹ ٹریلس (وی وی پی اے ٹی) کے مقابلے تین گنا زیادہ کی ضرورت ہوگی۔ اس پر ایس وائی قریشی کا کہنا ہے کہ اس کے لیے تقریباً 40 لاکھ اضافی مشینوں کی ضرورت پڑے گی، جس سے مالی اور ساز و سامان سے متعلق رخنات پیدا ہوں گے۔ اس لیے حساب لگائیے تو ہزاروں کروڑ روپے کی ضرورت ہوگی۔

ان چیلنجز کے مدنظر ایس وائی قریشی نے پارلیمنٹ میں بحث کی اہمیت پر زور دیا اور اراکین پارلیمنٹ سے ان فطری عملی ایشوز کو حل کرنے کی گزارش کی۔ انھوں نے کہا کہ ’’دیہی عوام قومی پالیسیوں کے مقابلے میں مقامی ایشوز کی زیادہ پروا کرتے ہیں۔ اگر وہ لاجسٹک ایشوز کے سبب ووٹنگ نہیں کر سکتے ہیں تو ان کی آواز کو خاموش کرا دیا جائے گا۔‘‘


ایس وائی قریشی نے ’ایک ملک، ایک انتخاب‘ سے متعلق تجویز کو نافذ کرنے کے بعد پیش آنے والی آئینی ضروریات پر بھی روشنی ڈالی۔ انھوں نے کہا کہ کسی بھی ترمیم کے لیے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اکثریت کی ضرورت ہوگی، ساتھ ہی کم از کم نصف ریاستوں سے منظوری کی ضرورت ہوگی۔ انھوں نے کہا کہ یہ عمل پیچیدہ اور متنازعہ ثابت ہو سکتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔