’ایک ملک، ایک انتخاب‘ نافذ ہوا تو 10 ریاستوں میں 1 سال اور کچھ دیگر ریاستوں میں 3 سال پہلے تحلیل ہو جائے گی اسمبلی
بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ این ڈی اے میں شامل تمام پارٹیاں ’ایک ملک، ایک انتخاب‘ کی تجویز کے حق میں ہیں، اس لیے انہیں قانون میں ترمیم کرنے میں کوئی دقت پیش نہیں آئے گی۔
مودی کابینہ نے بدھ کے روز سابق صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کی صدارت والی اعلیٰ سطحی کمیٹی کی سفارش کی بنیاد پر’ایک ملک، ایک انتخاب‘ (وَن نیشن، وَن الیکشن) کی تجویز کو منظوری دے دی۔ ایک روز قبل ہی مودی کی قیادت والی این ڈ ی اے حکومت کی تیسری مدت کار کے 100 دن پورے ہونے پر ایک کانفرنس میں وزیر داخلہ امت شاہ نے زور دے کر یہ بات کہی تھی کہ ’’اس حکومت کی مدت کار میں ہی ایک ملک ایک انتخاب والی تجویز نافذ کی جائے گی۔‘‘
مودی حکومت نے لوک سبھا اور صوبائی انتخابات کے ساتھ ہی میونسپل کارپوریشن کے انتخابات بھی ایک ساتھ کرانے کے لئے راستہ ہموار کرنے کے مقصد سے سابق صدر جمہوریہ رام ناتھ کوونڈ کی صدارت میں ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔ اس کمیٹی نے رواں سال ہوئے لوک سبھا انتخاب سے قبل مارچ میں موجودہ صدر جمہوریہ دروپدی مرمو کو اپنی رپورٹ سونپی تھی، جس میں ایک ساتھ تمام انتخابات کرانے کے لئے کچھ قوانین میں ترمیم کی سفارش کی گئی تھی۔
رام ناتھ کووند کی قیادت میں والی اس کمیٹی نے ’ایک ملک، ایک انتخاب‘ کی سمت پہلا قدم لوک سبھا اور ریاستی اسمبلی کے انتخاب ایک ساتھ کرانے کی سفارش کی ہے۔ اس کے بعد 100 دنوں کے اندر بلدیاتی انتخابات کرانے کی تجویز ہے۔ کمیٹی کا کہنا ہے کہ اس کے لئے کچھ قوانین میں ترمیم کرنی ہوگی۔ حالانکہ لوک سبھا اور اسمبلی الیکشن کے انتخابات ایک ساتھ کرانے کے لئے ابتدائی قدم کے طور پر اس سفارش کو اگر پارلیمنٹ کی منظوری مل جاتی ہے تو ان ترامیم کو ریاستی اسمبلیوں کی منظوری کی ضرورت درکار نہیں ہوگی۔
واضح ہو کہ رواں سال ہوئے لوک سبھا انتخاب میں مودی حکومت کو 240 سیٹیں ملی ہیں اور اسے حکومت بنانے کے لئے جے ڈی یو اور ٹی ڈی پی کے ساتھ ہی کچھ علاقائی پارٹیوں کے تعاون کی بھی ضرورت پڑی ہے۔ ایسے میں سوال اٹھنا لازمی ہے کہ کیا بی جے پی کو اپنے اس قدم پر ان ساتھی پارٹیوں کا تعاون حاصل ہوگا۔ بی جے پی کا تو یہی دعویٰ ہے کہ ’ایک ملک، ایک انتخاب‘ کی تجویز پر این ڈی اے کی تمام حلیف پارٹیاں راضی ہیں، اور انہیں قوانین میں ترمیم کرتے وقت کوئی دقت پیش نہیں آئے گی۔
غور کرنے والی بات یہ ہے کہ اگر ’ایک ملک، ایک انتخاب‘ کی تجویز کو حقیقت میں بدلنا ہے تو اس کے لئے اس پر جلد از جلد عمل در آمد کرنا ہوگا۔ ایک بار لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات کی مدت کار بڑھانے یا گھٹانے سے متعلق تجویز کو پارلیمنٹ سے منظوری مل گئی تو 2029 میں لوک سبھا کے انتخاب سے پہلے ہی کئی ریاستوں میں وقت مقررہ سے پہلے انتخاب کرانا ہوگا، یعنی مدت کار مکمل ہونے سے قبل اسمبلی کو تحلیل کرنا ہوگا۔ حالانکہ کمیٹی نے اس بات کو حکومت کے صوابدید پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ اسے کب سے نافذ کرتے ہیں۔
بہرحال، حالات کو دیکھ کر یہی کہا جا سکتا ہے کہ اگر موجودہ انتخابی نظام کو تبدیل کر نئی تجویز یعنی ’ایک ملک، ایک انتخاب‘ کو اختیار کیا جاتا ہے تو کئی ریاستوں کی قانون ساز اسمبلیوں کو وقت سے پہلے تحلیل کرنا پڑے گا۔ ملک کے 10 ایسے صوبے ہیں جہاں گزشتہ سال ہی اسمبلی انتخابات ہوئے ہیں۔ ایسی صورت میں وہاں کی حکومت طے وقت 2028 سے پہلے ہی تحلیل کرنی پڑے گی۔ یعنی ان تمام صوبوں کی حکومت کی مدت کار صرف ایک سال کی ہو پائے گی۔ جن صوبوں میں یہ حالات پیش آ سکتے ہیں ان میں چھتیس گڑھ، راجستھان، مدھیہ پردیش، کرناٹک، تلنگانہ، ہماچل پردیش، ناگالینڈ، تریپورہ، میزورم اور میگھالیہ ہیں۔
ان صوبوں کے علاوہ اتر پردیش، گجرات اور پنجاب کی موجودہ حکومت کی مدت کار 2027 تک ہے، اسے صرف دو سال کا وقت ہی مل پائے گا۔ اسی طرح تمل ناڈو، مغربی بنگال، آسام اور کیرالہ کی حکومتوں کو صرف تین سال ہی حکومت چلانے کا موقع مل پائے گا۔ ایسا اس لیے کیونکہ وہاں 2026 میں اسمبلی انتخاب ہونا ہے۔ ساتھ ہی کچھ ایسے صوبے بھی ہیں جن کی میعاد 2029 تک ہے۔ ان صوبوں میں آندھرا پردیش، اڈیشہ، اروناچل پردیش، سکم شامل ہیں۔ کچھ ایسے بھی صوبے ہیں جہاں اس سال انتخاب ہونے والے ہیں ان میں ہریانہ، جموں و کشمیر اور مہاراشٹر ہیں۔ ان میں سے اڈیشہ، آندھرا پردیش، اروناچل پردیش اور سکم کے انتخاب لوک سبھا کے ساتھ ہی ہوتے ہیں۔
ایک ساتھ انتخابات کرانے میں کسی آئینی نظام کی خلاف ورزی نہ ہو، یہ یقینی بنانے کے لئے کمیٹی نے آئین کی دفعہ 83 میں ترمیم کرنے کی سفارش کی ہے۔ یہ لوک سبھا کی مدت طئے کرتا ہے۔ اس کے علاوہ دفعہ 172 میں بھی ترمیم کرنے کی سفارش کی گئی ہے، جس سے ریاستی اسمبلیوں کی مدت کار مقرر ہوتی ہے۔ ایسا مانا جا رہا ہے کہ مرکزی کابینہ کی منظوری کے بعد ان دفعات میں ترمیم صدر جمہوریہ کے نوٹیفیکیشن کے بعد ممکن ہو سکے گا۔ اگر پارلیمنٹ سے ان ترامیم کو منظوری نہیں ملتی ہے تو نوٹیفیکیشن بے کار ہو جائے گا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔