کسان تحریک: آج رات بھر ہوگی منصوبہ بندی، ہفتہ کی صبح نئی طاقت کے ساتھ شروع ہوگا مظاہرہ!
دہلی-ہریانہ کے سنگھو بارڈر پر کئی کسان لیڈران جمع ہیں اور اس بات کو لے کر منصوبہ بندی کر رہے ہیں کہ نرنکاری گراؤنڈ میں مظاہرہ کرنا مناسب ہوگا یا نہیں۔ کل صبح اس سلسلے میں کوئی حتمی اعلان ممکن ہے۔
دو دنوں کی جدوجہد کے بعد کسانوں کو دہلی میں مظاہرہ کرنے کی اجازت تو مل گئی ہے، لیکن کئی کسان مظاہرین اس بات سے ناراض ہیں کہ انھیں براڑی واقع نرنکاری سماگم گراؤنڈ میں جمع ہونے کی اجازت دے کر تحریک کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سنگھو بارڈر پر کئی کسان لیڈران جمع ہیں اور آگے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہیں۔ کسانوں کی بڑی تعداد نرنکاری گراؤنڈ کی طرف روانہ ہو بھی چکی ہے، لیکن پنجاب اور ہریانہ سے دہلی میں داخل ہونے کے لیے مختلف مقامات پر جمع کسانوں کی ایک بڑی تعداد اس بات کا انتظار کر رہی ہے کہ کسان لیڈران اس سلسلے میں کیا فیصلہ لیتے ہیں۔
موصولہ اطلاعات کے مطابق کئی کسان لیڈروں کا ماننا ہے کہ براڑی میں کسان تحریک کمزور پڑ سکتی ہے، اس لیے فی الحال وہ جہاں ہیں، وہیں پر اپنا مظاہرہ جاری رکھیں۔ حالانکہ کسانوں کے لیڈران سنگھو بارڈر سے کچھ دوری پر آگے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آج رات بھر کسان لیڈران اطمینان سے ہر زاویہ پر غور و خوض کریں گے اور ہفتہ کی صبح یعنی 28 نومبر کو ایک نئی طاقت کے ساتھ اپنا مظاہرہ شروع کریں گے۔ 28 نومبر کو بھی کسانوں کو اس سلسلے میں جانکاری دی جا سکتی ہے کہ انھیں نرنکاری گراؤنڈ جانا ہے یا بارڈر پر ہی ڈتے رہنا ہے۔
دہلی-ہریانہ بارڈر پر کسانوں کا مظاہرہ رات میں بھی جاری ہے اور کھانے پینے کے پورے انتظام کے ساتھ کسان بیٹھے ہوئے ہیں۔ 27 نومبر کی صبح سنگھو بارڈر پر پولس کارروائی کے بعد حالات بے قابو ہو گئے تھے، لیکن فی الحال ماحول پرامن ہے۔ کسان الگ الگ گروپ بنا کر جگہ جگہ بیٹھے ہوئے ہیں۔ شام ہونے کے بعد سے ہی انھوں نے کھانے پینے کی تیاری شروع کر دی اور سڑکوں پر ہی آگ جلا کر روٹی اور سبزی کے ساتھ ساتھ چائے بھی بننی شروع ہو گئی۔ اس درمیان کسانوں نے میڈیا سے بات کرنا بھی بند کر دیا ہے کیونکہ ان کا الزام ہے کہ میڈیا انھیں غلط طریقے سے پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
اس سے قبل آج صبح کسانوں کے عزم کے سامنے جھکتے ہوئے مودی حکومت نے انھیں دہلی میں داخلے کی اجازت دے دی تھی۔ دہلی پولس نے کسانوں کو براڑی واقع نرنکاری سماگم میدان میں پرامن مظاہرہ کرنے کے لیے کہا اور یہ بھی ہدایت دی کہ وہ کسی دوسری جگہ پر جمع نہ ہوں۔ دہلی پولس نے یہ بھی کہا کہ بارڈر سے سبھی کسانوں کو براڑی کے نرنکاری میدان لے جانے کا انتظام پولس ہی کرے گی۔
دراصل پولس کی لاکھ کوششوں کے باوجود کسان دہلی-ہریانہ سرحد پر جمے ہوئے تھے اور وہ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھے۔ اس دوران مظاہرین اور پولس کے درمیان تصادم ہو گیا۔ پولس نے کسانوں کو منتشر کرنے کے لیے طاقت کا استعمال شروع کر دیا جس سے حالات مزید خراب ہو گئے۔ سنگھو اور ٹیکری بارڈر سے کسانوں کو کھدیڑنے کے لیے ان پر پانی کی بوچھاریں کی گئیں اور اانسو گیس کے گولے داغے گئے۔ کئی بار لاٹھی چارج بھی کیا گیا لیکن کسان حوصلہ کے ساتھ کھڑے رہے۔ پولس کارروائی کی کانگریس سمیت کئی پارٹیوں نے تنقید کی اور کہا کہ اس طرح کا عمل ظالمانہ ہے کیونکہ کسان کسی طرح کا تشدد نہیں کر رہے۔ کانگریس کے کئی لیڈران نے کسانوں کی آواز دبانے کی کوششوں کو غیر اخلاقی اور غیر آئینی بھی ٹھہرایا۔
واضح رہے کہ مودی حکومت کے ذریعہ نافذ تین متنازعہ زرعی قوانین کو واپس لینے کا مطالبہ کر رہی کسان تنظیموں نے 27-26 نومبر کو ’دہلی چلو‘ کا اعلان کیا تھا، جہاں عظیم الشان مظاہرہ کرنے کا منصوبہ تھا۔ ملک بھر کی تقریباً 500 کسان تنظیمیں مودی حکومت کے ذریعہ حال ہی میں نافذ تینوں زرعی قوانین کی مخالفت کر رہی ہیں۔ کسانوں کا مطالبہ ہے کہ حکومت ان قوانین کو منسوخ کرے اور ایم ایس پی کی گارنٹی دے۔ فی الحال کسانوں کا کہنا ہے کہ مودی حکومت کسان مخالف حکومت ہے اور نئے قوانین سے کسان برباد ہو جائے گا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔