کانگریس کا پی ایم مودی پر سخت حملہ، کہا- دوسرے مرحلے کے بعد بوکھلائے مودی ڈر پھیلا رہے ہیں

کانگریس جنرل سکریٹری جے رام رمیش نے کہا کہ دوسرے مرحلے کے بعد ممکنہ شکست سے بوکھلائے مودی کو ڈر پھیلانے اورجھوٹ بولنے کے بجائے کچھ سوالات کا جواب دینا چاہئے۔

<div class="paragraphs"><p>وزیر اعظم نریندر مودی / ٹوئٹر</p></div>

وزیر اعظم نریندر مودی / ٹوئٹر

user

قومی آواز بیورو

کانگریس نے پی ایم مودی پر سخت حملہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ لوک سبھا انتخابات کے دوسرے مرحلے میں عوامی رجحان میں ممکنہ شکست دیکھ کر وہ مایوسی اور بوکھلاہٹ میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ وہ خوفزدہ ہوکر خوف پھیلانے لگے ہیں۔ کانگریس نے یہ بھی کہا ہے کہ الیکٹورل بانڈ اسکیم ایک گھوٹالہ ہے اور بی جے پی نے 2018 اور 2023 کے درمیان بانڈ کے ذریعے صنعتی گھرانوں سے 8,200 کروڑ روپے حاصل کیے اور انہیں پروجیکٹ دئیے۔

کانگریس جنرل سکریٹری جے رام رمیش نے کرناٹک میں پی ایم مودی کی ریلی سے قبل مودی سے کچھ سوالات پوچھے ہیں۔ اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر انہوں نے لکھا کہ دوسرے مرحلے میں شکست کے بعد مایوس وزیر اعظم آج کرناٹک میں کئی ریلیاں کر رہے ہیں۔ کچھ سوالات ہیں جن کا جواب جھوٹ بولنے اور خوف پھیلانے کے بجائے دینا چاہیے۔ اپنے پوسٹ میں انہوں نے کہا ہے کہ گزشتہ پانچ سالوں میں وزیر اعظم نے 8,200 کروڑ روپے کا چندہ لیا اور بدلے میں صنعتی گھرانوں کو 4 لاکھ کروڑ روپے کا کاروبار دیا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے 2017 میں کہا تھا کہ الیکٹورل بانڈ اسکیم ایک انقلاب ہے اور سیاسی چندوں میں شفافیت لائے گی لیکن اب سپریم کورٹ نے اسے غیر آئینی قرار دے دیا ہے۔


جے رام رمیش نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ وزیر اعظم کے لیے بڑا جھٹکا ہے اور آخری دم تک وہ ایس بی آئی پر تفصیلات ظاہر نہ کرنے کے لیے دباؤ ڈالتے رہے لیکن سپریم کورٹ نے اپنا قدم واپس نہیں لیا اور ایس بی آئی کو مکمل تفصیلات دینی پڑیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ پی ایم مودی کے دور میں سب سے بڑی بدعنوانی اور سب سے بڑا گھوٹالہ ہے۔ نوٹ بندی بھی ایک گھوٹالہ تھا اور انتخابی بانڈ بھی ایک گھوٹالہ ہے۔

جے رام رمیش نے سوال کیا ہے کہ عوامی نمائندوں کے طور پر بی جے پی کے ممبران پارلیمنٹ کی کارکردگی اتنی خراب کیوں ہے؟ مرکز نے سات ماہ کی تاخیر کے بعد 20 فیصد سے کم خشک سالی ریلیف فنڈ کیوں جاری کیا؟ مرکز ’اپر بھدرا‘ اور ’مہادئی‘ پروجیکٹوں کو کیوں روک رہا ہے؟ پارلیمانی ریسرچ سروس (پی آر ایس) کے تازہ ترین اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے جے رام رمیش نے کہا ہے کہ کرناٹک کے بی جے پی ممبران پارلیمنٹ نے اپنی ذمہ داریوں کو مکمل طور پر نظر انداز کیا ہے۔

کانگریس کے لیڈر نے کہا کہ پارلیمنٹ میں قومی اوسط حاضری 79 فیصد تھی لیکن کرناٹک کے 28 ممبران پارلیمنٹ کی اوسط حاضری 71 فیصد سے بھی کم تھی۔ جائزے سے یہ بات سامنے آئی کہ ان میں سے 26 ممبران پارلیمنٹ نے کبھی بھی کرناٹک کے مسائل جیسے منریگا فنڈز، خشک سالی اور سیلاب سے متعلق امدادی فنڈ اور پی ڈی ایس (عوامی تقسیم کے نظام) کے لیے چاول کے اضافی تقسیم کے معاملے پر مرکز کے انکار پر کوئی سوال نہیں اٹھایا۔

جے رام رمیش نے کہا کہ تمام مباحثوں کی نقلوں کا تجزیہ کرنے پر پی آر ایس نے پایا کہ بہت کم ممبران پارلیمنٹ نے اپنے حلقوں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے پالیسیاں یا پروگرام شروع کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا ہے کہ پانچ سالوں میں تین ممبران پارلیمنٹ نے ایک بھی سوال نہیں پوچھا اور پانچ ممبران پارلیمنٹ نے ایک بھی بحث میں حصہ نہیں لیا۔ جب کہ زیادہ تر ممبران پارلیمنٹ کی  ریاست کو نظر انداز کرنے پر تنقید کی گئی۔ سات ممبران نے اپنے حلقہ انتخاب  میں صرف آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) - بی جے پی (بھارتیہ جنتا پارٹی) کے غیر قانونی ایجنڈے پر توجہ مبذول کیا۔


جے رام رمیش نے کہا ہے کہ شاید سب سے قابل مذمت نتیجہ یہ ہے کہ 28 میں سے 14 ممبران پارلیمنٹ اپنے علاقوں میں فرقہ وارانہ تشدد کو فروغ دینے میں براہ راست یا بالواسطہ طور پر ملوث تھے۔ کیا وزیر اعظم مودی ان ناکارہ ممبران پارلیمنٹ کو کرناٹک کے عوام پر مسلط کرنے پر معافی مانگیں گے؟ یا ان کا ارادہ بی جے پی کے ایسے ممبران پارلیمنٹ کو منتخب کرنا تھا جو کام نہیں کریں گے تاکہ کرناٹک کی آواز کو نظر انداز کیا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ کرناٹک حکومت نے ڈیزاسٹر ریلیف قوانین کے تحت مرکز سے 18,000 کروڑ روپے سے زیادہ کی راحت طلب کیے ہوئے سات ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ کرناٹک شدید خشک سالی کے حالات سے لڑ رہا ہے، 236 میں سے 223 تعلقہ کو خشک سالی کی صورتحال کا سامنا ہے اور 196 تعلقوں کو شدید متاثر قرار دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کرناٹک حکومت نے ستمبر 2023 کے اوائل میں ہی مودی حکومت سے رابطہ کیا تھا اور خشک سالی سے نمٹنے کے لئے 18,171 کروڑ روپے کے فنڈز جاری کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ 2005 کے مطابق مرکز کو انٹر منسٹریل سنٹرل ٹیم (آئی ایم سی ٹی) کی رپورٹ موصول ہونے کے ایک ماہ کے اندر فنڈز جاری کرنے پر حتمی فیصلہ لینا ہے۔ کرناٹک کے معاملے میں یہ مدت دسمبر 2023 میں ختم ہوئی۔ وزیر خزانہ نے گزشتہ ماہ یہ عذر پیش کیا کہ ماڈل ضابطہ اخلاق کے نفاذ کے بعد ان کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔

جے رام رمیش نے کہا کہ کرناٹک حکومت کے ذریعے سپریم کورٹ میں دباؤ ڈالنے کے بعد مرکز نے آخرکار فنڈز کو منظوری دی، لیکن یہ صرف 3,498 کروڑ روپے ہے۔ یہ اس رقم کا 20 فیصد سے بھی کم ہے جس کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ جے رام رمیش نے سوال کیا کہ وزیر اعظم کرناٹک کے لوگوں کے تئیں اتنے لاتعلق کیوں ہیں؟ انہوں نے مرکزی حکومت پر ’اپر بھدرا‘ اور ’مہاد ئی‘ پروجیکٹوں کو نظر انداز کرنے کا الزام لگاتے ہوئے ان معاملات پر ’خاموشی‘ کو توڑنے کے لیے کہا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔