یوگی حکومت کو سپریم کورٹ سے بڑا جھٹکا، کانوڑ یاترا روٹ پر ’نیم پلیٹ‘ کے فیصلے پر روک

سماعت کے دوران جسٹس رائے نے کہا کہ کیا کانوڑیئے اس بات کی توقع کر سکتے ہیں کہ کھانا کسی خاص برادری کی دکان کا ہو اور اناج کسی خاص برادری کا ہی پیدا کردہ ہو؟ اس پر سنگھوی نے کہا کہ یہی ہماری دلیل ہے۔

<div class="paragraphs"><p>سپریم کورٹ آف انڈیا /آئی اے این ایس</p></div>

سپریم کورٹ آف انڈیا /آئی اے این ایس

user

قومی آواز بیورو

سپریم کورٹ نے پیر کو اترپردیش کی یوگی حکومت کو بڑا جھٹکا دیا ہے۔ عدالت نے کانوڑ روٹ پر دکانداروں کو اپنی دوکانوں پر نیم پلیٹ لگانے کے حکم پر روک لگا دی ہے۔ عدالت نے کہا ہے کہ کھانے پینے کی دکانوں پر صرف کھانے پینے کی اشیا کی اقسام لکھی جائیں، دکاندار کا نام لکھنا ضروری نہیں۔

سماعت کے دوران درخواست گزاروں کے وکیل نے نیم پلیٹ لگانے کے حکم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پہلے دو ریاستوں نے ایسا کیا، اب مزید دو ریاستیں ایسا فیصلہ کرنے جا رہی ہیں۔ بلدیہ کے بجائے پولیس کارروائی کر رہی ہے۔ اقلیتوں اور دلتوں کو الگ تھلگ کیا جا رہا ہے۔ وکیل نے سب سے پہلے مظفر نگر پولیس کا حکم پڑھا، جس پر جسٹس ہرشی کیش رائے نے پوچھا کہ یہ حکم ہے یا پریس ریلیز؟ وکیل نے کہا کہ میں پریس ریلیز پڑھ رہا ہوں۔ اس میں لکھا ہے کہ ماضی میں کانوڑ یاتریوں کو غلط چیزیں کھلا دی گئیں، اس لیے دکاندار کا نام لکھنا لازمی قرار دیا جا رہا ہے۔ جب آپ سبزی، خالص سبزی، جین فوڈ وغیرہ لکھ سکتے ہیں تو بیچنے والے یا دوکاندار کا نام لکھنا کیوں ضروری ہے؟


اس پر جج نے کہا کہ اس میں تو رضاکارانہ لکھا ہے۔ اس پر دوسری درخواست گزار مہوا موئترا کے وکیل ابھیشیک منو سنگھوی نے کہا کہ یہ رضاکارانہ نہیں ہے بلکہ لازمی ہے۔ ایڈوکیٹ سی یو سنگھ نے کہا کہ پولیس کو ایسا کرنے کا کوئی قانونی حق نہیں ہے۔ دیکھئے ہری دوار پولس کا حکم، جس میں کہا گیا ہے کہ سخت کارروائی کی جائے گی۔ یہ ہزاروں کلومیٹر کا راستہ ہے۔ لوگوں کا ذریعہ معاش متاثر کیا جا رہا ہے۔ ایڈووکیٹ ابھیشیک منو سنگھوی نے کہا کہ دکاندار اور عملے کے نام لکھنا ضروری کر دیا گیا ہے۔ یہ شناخت کی بنیاد پر اخراج (بائیکاٹ) ہے۔نام نہ لکھو تو کاروبار بند، نام لکھو تو فروخت ختم۔ جس پر جسٹس بھٹی نے کہا کہ معاملے کو بڑھا چڑھا کر نہ پیش کیا جائے۔ حکم سے پہلے مسافروں کی حفاظت کا بھی خیال رکھا گیا ہوگا۔

ایڈووکیٹ ابھیشیک منو سنگھوی نے کہا کہ مسلمان، عیسائی، بدھ سبھی ان یاتریوں کے کام آتے رہے ہیں۔آپ خالص سبزی (شودھ شاکاہاری) لکھنے پر اصرار کر سکتے ہیں، دکاندار کے نام پر نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کے ذریعے معاشی بائیکاٹ کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اچھوت کو بھی فروغ دیا جا رہا ہے۔ ایڈووکیٹ سی یو سنگھ نے کہا کہ دیکھیں، اجین میں بھی انتظامیہ نے دکانداروں کے لیے ایسی ہدایات جاری کی ہیں۔ جسٹس رائے نے کہا کہ کیا کانوڑیئے اس بات کی  توقع کر سکتے ہیں کہ کھانا کسی خاص برادری کی دکان کا ہو اور اناج کسی خاص برادری کا ہی پیدا کردہ ہو؟ اس پر سنگھوی نے کہا کہ یہی ہماری دلیل ہے۔


جسٹس بھٹی نے کہا کہ کیرالہ کے ایک شہر میں 2 مشہور ویجیٹیرین ریسٹورنٹ ہیں۔ ایک ہندو کا ہے اور ایک مسلمان کا ہے۔ مجھے ذاتی طور پر مسلمان کے ریسٹورنٹ میں جانا پسند تھا کیونکہ وہاں صفائی زیادہ نظر آتی تھی۔ اس پر سنگھوی نے کہا کہ فوڈ سیکورٹی ایکٹ بھی صرف ویجیٹیرین-نان ویجیٹیرین اور کیلوریز لکھنے کی بات کرتا ہے۔ مینوفیکچرنگ کمپنی کے مالک کا نام لکھنے کی ضرورت نہیں۔ سنگھوی نے کہا کہ کانوڑ یاترا 6 اگست کو ختم ہوگی۔ اس لیے ان احکامات کو ایک دن کے لیے بھی جاری رکھنا غلط ہے۔

سماعت کے بعد جج نے کہا کہ ہم نے درخواست گزاروں کی جانب سے تمام سینئر وکلاء کو سنا۔ انہوں نے 17 جولائی کی مظفر نگر پولیس کی ہدایات کو چیلنج کیا ہے اور اس کے بعد کی گئی پولیس کارروائی پر احتجاج بھی کیا گیا ہے۔ جج نے کہا کہ اس ہدایت سے تنازعہ کھڑا ہوا ہے۔ ہم نے ہندی میں جاری کردہ ہدایات اور اس کا انگریزی ترجمہ دیکھا۔ اس میں لکھا ہے کہ ساون کے مقدس مہینے میں گنگا کا پانی لانے والے کانوڑیئے کچھ اقسام کے کھانوں سے دور رہنا چاہتے ہیں۔ بہت سے لوگ پیاز اور لہسن بھی نہیں کھاتے۔ جج نے کہا کہ دکانداروں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے نام اور اپنے ملازمین کے نام لکھیں۔ درخواست گزار اسے مذہبی بنیادوں پر امتیازی اور اچھوت کو فروغ دینے والا قرار دے رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ صرف ویجیٹیرین اور  نان ویجیٹیرین لکھنا کافی ہے۔


جج نے کہا کہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس طرح کے حکم کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے۔ اس سے ملک کے سیکولر کردار کو نقصان پہنچتا ہے، جو آئین کے تمہید کا حصہ ہے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ کئی ملازمین کو کام سے ہٹا دیا گیا ہے۔ ان مباحث اور دلائل کے بعد عدالت نے کھانے پینے کی ہوٹلوں اور ٹھیلوں وغیرہ پر نیم پلیٹ لگانے کے یوگی  حکومت کے فیصلے پر روک لگادی۔ عدالت نے کہا کہ کھانے پینے کی دکانوں پر کھانے کی اقسام لکھی جائیں، دکاندار کا نام لکھنا ضروری نہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔