ہاتھیوں اور انسانوں کے درمیان تصادم روکنے میں ہوگا شہد کی مکھیوں کا استعمال!
کے وی آئی سی نے ہاتھیوں کے داخلی راستے کو انسانی بستیوں تک جانے سے روکنے میں ہاتھی-انسان تصادم کے علاقوں کے راستوں کے سبھی 4 مقامات میں سے ہر جگہ شہد کی مکھیوں کے 15 سے 20 باکس لگائے ہیں۔
نئی دہلی: کھادی اینڈ ولیج انڈسٹریز کمیشن (کے وی آئی سی) نے کرناٹک میں انسانوں اور ہاتھیوں کے درمیان تصادم کو کم کرنے کے لئے ‘شہد کی مکھی -باڑ’ بنانے کا پروجیکٹ شروع کیا ہے۔ بہت چھوٹی ،چھوٹی اوردرمیانہ صنعتوں کی مرکزی وزارت کے ذرائع نے بتایاکہ کمیشن نے ملک میں انسانوں اور ہاتھیوں کے درمیان تصادم کوکم کرنے کےلیے ‘شہد کی مکھی- باڑ’ بنانے کا ایک انوکھا پروجیکٹ شروع کیا ہے۔پروجیکٹ ری- ہیب (شہد کی مکھیوں کے توسط سے ہاتھی اور انسانوں کے حملوں کو کم کرنے کا پروجیکٹ)، کا مقصد شہدکی مکھیوں کا استعمال کر کے انسانی بستیوں میں ہاتھیوں کے حملوں کو نا کام کرنا ہے اور اس طرح سے انسان اور ہاتھی دونوں کی زندگی کو ہونے والے نقصان کو کم سے کم کرنا ہے۔
کھادی اینڈویلیج انڈسٹریزکمیشن کے چیئرمین ونے کمار سکسینہ کے ذریعے 15 مارچ 2021کو کرناٹک کے کوڈاگو ضلعےکے چیلور گاؤں کےآس پاس 4 مقامات پر پائلٹ پروجیکٹ شروع کیا گیا۔ یہ سبھی مقام ناگر ہول نیشنل پارک اور ٹائگر ریزرو کے باہری علاقوں میں واقع ہیں او رانسانوں اور ہاتھیوں کے درمیان تصادم کوروکنے کےلئے کام کر رہےہیں۔ ری-ہیب پرجیکٹ کی کُل لاگت محض 15 لاکھ روپے ہے۔
پروجیکٹ ری-ہیب کے وی آئی سی کے قومی شہد مشن کے تحت ایک ذیلی مشن ہے، چونکہ شہد مشن چھتےلگا کر شہد کی مکھیوں کی تعداد بڑھانے، شہد کی پیداوار اور شہد کی مکھی پالنے والوں کی آمدنی بڑھانے کا ایک پروگرام ہے، تو پروجیکٹ ری-ہیب ہاتھیوں کے حملوں کو روکنے کے لئے شہد کی مکھی کے باکس کو باڑ کے طور پر استعمال کرتا ہے۔
کے وی آئی سی نے ہاتھیوں کے داخلی راستے کو انسانی بستیوں تک جانے سے روکنے میں ہاتھی - انسان تصادم کے علاقوں کے راستوں کے سبھی 4 مقامات میں سے ہر جگہ شہد کی مکھیوں کے 15 سے 20 باکس لگائے ہیں۔ باکس ایک تار کے ساتھ منسلک ہیں تاکہ جب ہاتھی گزرنے کی کوشش کریں، تب ایک ٹَگ یا پُل ہاتھی کے جھنڈ کو آگے بڑھنےسے روک دے۔ شہد کی مکھیوں کے باکس کو زمین پر رکھا گیا ہے اور ساتھ ہی ہاتھیوں کے راستے کو روکنے کےلئے درختوں سے لٹکایا گیا ہے۔ ہاتھیوں پر شہد کی مکھیوں کے اثرات اور ان علاقوں میں ان کے برتاؤ کو ریکارڈ کرنے کے لئے اسٹریٹجک اعتبار سے اہم جگہوں پر کسی نتیجے پرپہنچنے کےلئے نائٹ ویژن کیمرے لگائے گئے ہیں۔
کے وی آئی سی کے چیئرمین جناب سکسینہ نے انسان -ہاتھی تصادم کو روکنے کے لئے ایک مستقل عزم کی شکل میں اسے ایک انوکھی پہل بتایا اور کہا کہ یہ مسئلہ ملک کئ حصوں میں عام ہے۔ انہوں نے کہا کہ ‘‘یہ سائنسی اعتبار سے بھی ماناگیا ہے کہ ہاتھی ، شہد کی مکھیوں سے گھبراتے ہیں اور وہ شہد کی مکھیوں سے ڈرتے بھی ہیں۔ ہاتھیوں کو ڈر لگتا ہے کہ شہد کی مکھیوں کے جھنڈ سونڈ اور آنکھوں کے ان کے حساس اندرونی حصے کو کاٹ سکتے ہیں۔ شہد کی مکھیوں کا جھنڈ ہاتھیوں کو پریشان کرتا ہے اور یہ انہیں واپس چلے جانے کے لئے مجبور کرتا ہے۔ ہاتھی جو سب سے سمجھدار جانورو ہوتے ہیں اور طویل عرصے تک اپنی یادداشت میں ان باتوں کو محفوظ رکھتے ہیں، وہ سبھی ان جگہوں پر لوٹنے سے بچتے ہیں، جہاں انہوں نے شہد کی مکھیوں کا سامنا کیا ہوتا ہے۔ ’’جنا ب سکسینہ نے یہ بھی کہا کہ ‘‘ پروجیکٹ ری-ہیب کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ہاتھیوں کو کوئی نقصان پہنچائے بغیر ہی انہیں واپس لوٹنے کو مجبور کرتا ہے اس کے علاوہ یہ گڈھوں کو کھودنے یا باڑ لگانے جیسی کئی دیگر تدابیر کے مقابلے میں انتہائی مؤثر ہے۔
ہندوستان میں ہاتھی کے حملوں کی وجہ سے ہر سال تقریباً 500 اموات ہوتی ہیں۔ یہ ملک بھر میں شیروں کے حملوں سے تقریباً 10 گنا زیادہ ہے۔ 2015 سے 2020 تک ہاتھیوں کے حملوں میں تقریبا ً 2500 لوگوں کی جان جا چکی ہے۔اس میں سےتنہا کرناٹک میں تقریبا 170 انسانی اموات ہوئی ہیں۔ اس کے برعکس اس تعداد کا تقریباً 5واں حصہ یعنی پچھلے 5سال میں انسانوں کی ناراضگی کی وجہ سے تقریباً 500 ہاتھیوں کی بھی موت ہوئی ہے۔
اس سے قبل کے وی آئی سی کی ایک اکائی شہد کی مکھیوں سے متعلق تحقیق اورٹریننگ کےمرکزی ادارے ، پنےنے ہاتھیوں کے حملوں کو کم کرنے کے لئے مہاراشٹر میں ‘‘ شہد کی مکھی –باڑ’’ بنانے کے علاقائی تجربے کئے تھے۔ حالانکہ یہ پہلی بار ہے کہ کھادی اور ویلیج انڈسٹریز کمیشن نے اس پروجیکٹ کو جامع طو رپر لانچ کیا ہے۔ کے وی آئی سی نے پروجیکٹ کے اثرات کے جائزے کے لئے زراعت اور باغبانی سائنسز یونیورسٹی، پونم پیٹ کے کالج آف فارسٹری کی مدد لی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔