سماج کو تقسیم کرنے اور زہر پھیلانے والا بدنام زمانہ مجرم ہے وسیم رضوی
دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین ظفرالاسلام خان نے وسیم رضوی کے جرائم کی ایک فہرست سوشل میڈیا پر پوسٹ کی ہے جس کے مطابق رضوی کے خلاف سنگین دفعات کے تحت کئی مقدمات درج ہیں۔
شیعہ وقف بورڈ کے سابق چیئرمین اور قرآن کی 26 آیتوں کو حذف کرنے کو لے کر سپریم کورٹ جانے والا وسیم رضوی ایک بدنام زمانہ مجرم ہے۔ اس کے خلاف مختلف تھانوں میں قتل، دھوکہ دہی اور لوٹ مار کے 27 مقدمات درج ہیں۔ حیرت انگیز طور سے وسیم رضوی اس قدر سنگین مقدمات ہونے کے بعد بھی کھلے عام گھوم رہا ہے۔ اتر پردیش حکومت ایک طرف تو جرائم پیشوں کے خلاف ’زیرو ٹولرینس پالیسی‘ کی بات کرتی ہے اور دوسری طرف وسیم رضوی جیسا بدنام زمانہ شخص ریاست میں کھلے عام نفرت پھیلا رہا ہے۔
دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین ظفرالاسلام خان نے وسیم رضوی کے جرائم کی ایک فہرست سوشل میڈیا پر پوسٹ کی ہے۔ اس فہرست کے مطابق وسیم رضوی کے خلاف پوری ریاست میں سنگین دفعات کے تحت کئی مقدمات درج ہیں۔ یہاں تک کہ اس کے خلاف قتل کا بھی مقدمہ ہے۔ دانشور اشخاص وسیم رضوی کے بیہودے بیانات کو انہی مقدمات سے جوڑ کر دیکھ رہے ہیں۔ وسیم رضوی کے خلاف کچھ مقدمات میں سی بی آئی جانچ بھی چل رہی ہے۔ قانون کے حساب سے اگر وسیم رضوی کی گرفتاری ہو جاتی ہے تو اس کا جیل سے نکلنا بہت مشکل ہو سکتا ہے۔ وسیم رضوی پر شیعہ وقف بورڈ کا چیئرمین رہتے وقت ملکیت کو ہتھیانے، دھوکہ دہی کرنے، مار پیٹ، لوٹ پاٹ جیسے کئی طرح کے الزامات ہیں۔
قابل ذکر یہ بھی ہے کہ وسیم رضوی کے لیے مسلم طبقہ کے خلاف بے بنیاد زہر اگلنے کا یہ کوئی پہلامعاملہ بھی نہیں ہے۔ پہلے بھی کئی مرتبہ یہ آدمی جھوٹے الزام لگا کر سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کے سبب سرخیوں میں رہا ہے۔ شیعہ طبقہ میں اس کی شناخت بے حد ہی شاطر قسم کے آدمی کی ہے۔ اب شیعہ علماء نے اسے اسلام سے خارج کر دیا ہے۔ کچھ معاملوں میں اس کے دیے گئے متنازعہ بیانات اور قابل اعتراض اقدام کی مثالیں نیچے پیش کی جا رہی ہیں۔ یہ سلسلہ وار بیانات و واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ وسیم رضوی کسی بڑے سازش کے تحت کام کر رہا ہے۔
نومبر 2017:
وسیم رضوی نے مسلم طبقہ کے جذبات کو ٹھیس پہنچاتے ہوئے ایودھیا کی متنازعہ زمین پر رام مندر بنانے کے لیے شیعہ وقف بورڈ کی طرف سے حمایت کا اعلان کیا تھا۔ اس اعلان کے بعد مسلم طبقہ کے لوگوں نے اس کی پرزور مخالفت کی تھی۔ مخالفت کرنے والوں میں شیعہ اور سنی دونوں طبقہ کے مسلمان شامل تھے۔ آپ کو بتا دیں کہ اس وقت تک بابری مسجد معاملے پر عدالت کی طرف سے کوئی فیصلہ نہیں آیا تھا اور سماعت جاری تھی۔
دسمبر 2017:
شیعہ وقف بورڈ کے چیئرمین رہتے ہوئے وسیم رضوی نے ایک خط کے ذریعہ وزیر اعظم نریندر مودی سے اپیل کی تھی کہ طلاق ثلاثہ بل میں مجوزہ 3 سال قید کی سزا کو بڑھا کر 10 سال کر دیا جائے۔ حالانکہ بیشتر مسلمان طلاق ثلاثہ بل کو اقلیتی طبقہ کے خلاف ایک سازش تصور کرتے تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ مسلم طبقہ کی خواتین کو سڑک پر لانے اور مردوں کو جیل بھیجنے کی یہ ایک سازش ہے۔
جنوری 2018:
ایک خط میں رضوی نے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کو دہشت گرد تنظیم کی ایک برانچ کہا تھا جس پر کافی ہنگامہ برپا ہوا تھا۔
فروری 2018:
وسیم رضوی نے ہندوستان کی کئی مساجد کو ہندوؤں کو سونپنے کی بات کہی تھی۔ رضوی کے مطابق ’’عبادت کی جگہ (خصوصی انتظام) ایکٹ-1991 کے تحت کئی متنازعہ مساجد محفوظ کی جا چکی ہیں۔ انھیں ہندوؤں کو سونپنے میں مشکل ہوگی، اس لیے اسے ختم کیا جائے۔‘‘ رضوی نے ایودھیا، کاشی، متھرا، قطب مینار سمیت کل 9 مساجد کو متنازعہ قرار دیتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کو ایک خط لکھا تھا۔ حالانکہ بورڈ کے سکریٹری ظفریاب جیلانی نے بتایا تھا کہ اگر ایسا کوئی خط ملتا ہے تو بورڈ رضوی پر قانونی کارروائی کرے گا۔ چونکہ ملک میں ایسا قانون ہے کہ 15 اگست 1947 کے بعد سے ہر مذہبی مقام کی حالت ویسے ہی برقرار رکھی جائے گی۔
اکتوبر 2018:
وسیم رضوی نے اسلام کے سب سے پہلے دو عظیم خلیفہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قابل اعتراض طریقے سے ’دہشت گرد‘ لفظ سے مخاطب کیا تھا۔ رضوی نے کہا تھا کہ ’’دہشت گرد ابو بکر اور عمر کے نظریات کو چھوڑ ایک معاہدہ کی میز پر بیٹھ کر ہار جیت کے بغیر رام کا حق ہندوؤں کو واپس کرنا چاہیے۔‘‘
نومبر 2018:
رضوی نے بابری مسجد انہدام کے اوپر ایک پروپیگنڈا فلم کی تعمیر کی۔ ’رام جنم بھومی‘ نامی یہ فلم ٹریلر کی ریلیز کے ساتھ ہی تنازعات میں پھنس گئی تھی۔ فلم میں مسلم طبقہ کی شبیہ کو غلط انداز سے پیش کرنے کا رضوی پر الزام عائد کیا گیا تھا۔ غور طلب ہے کہ فلم ریلیز ہونے کے باوجود باکس آفس پر کچھ خاص نہیں کر پائی تھی۔
جنوری 2019:
رضوی نے اسلامی مدارس پر دہشت گردی کو فروغ دینے کا الزام عائد کرتے ہوئے اسے بند کروانے کی بات کی تھی۔ رضوی نے کہا تھا ’’یہ ہندوستانی مسلمانوں کے لیے اچھے نہیں ہیں۔ یہ مسلم نوجوانوں کے دماغ میں زہر گھولتے ہیں۔ بہت مدارس میں دہشت گردانہ ٹریننگ دی جاتی ہے۔ یہاں جدید تعلیم نہیں دی جاتی۔ مذہبی کٹرپسندی سکھائی جاتی ہے۔‘‘
جولائی 2019:
وسیم رضوی نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی تھی کہ ہرے رنگ کے چاند تارے والے جھنڈے پر پابندی لگائی جائے۔ رضوی نے کہا تھا کہ یہ جھنڈا اسلام کا مذہبی جھنڈا نہیں ہے، یہ پاکستان کی سیاسی پارٹی ’پاکستان مسلم لیگ‘ سے ملتا جلتا ہے۔ اس جھنڈے کو لہرانے والے لوگوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔
ستمبر 2019:
وسیم رضوی نے پیغمبر محمدؐ کی بیوی حضرت عائشہؓ پر ایک فلم بنائی تھی جس کے ٹریلر کے سامنے آتے ہی ملک بھر میں رضوی کی مذمت ہونے لگی تھی۔ مسلم علماء نے فلم پر پابندی عائد کر کے وسیم رضوی کی گرفتاری کا مطالبہ کیا تھا۔ علماء کے مطابق حجرت عائشہؓ کو مسلمانوں کی ماں کا درجہ حاصل ہے اور ان کی فلم بنانے کا خیال ہی برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ تنازعہ اس قدر بڑھا کہ رضوی فلم کو بڑے پردے پر ریلیز ہی نہیں کر سکے۔
جنوری 2020:
اپنے تیسرے پروپیگنڈا فلم ’سری نگر‘ کے ساتھ رضوی نے مسلم طبقہ کی شبیہ کو خراب کرنے کی ایک بار پھر سے کوشش کی تھی۔ ٹریلر لانچ کے وقت وسیم رضوی نے کہا تھا کہ ’’کشمیر پر پڑھا اور اس پر فلم بنائی۔ کشمیری پنڈت سماج کو کس بے دردی کےس اتھ اپنی زمین جائیداد چھوڑنے کے لیے مجبور کر دیا گیا۔ جو مسلمان، ہندوؤں کو بھائی اور بہن کہتے تھے ان کو جب ورغلایا گیا تو انھوں نے انہی بہنوں کے ساتھ عصمت دری کی، کیا یہ انسانیت تھی؟‘‘
اکتوبر 2020:
مذہبی تبدیلی پر مبنی ’ہیلپ لیس‘ نامی فلم کے ساتھ وسیم رضوی نے مسلم سماج کو قابل اعتراض طریقے سے پیش کرنے اور بے عزت کرنے کی کوشش کی تھی۔
مارچ 2021:
شیعہ وقف بورڈ کے سابق چیئرمین وسیم رضوی نے قرآن کی 26 آیتوں کو حذف کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں ایک مفاد عامہ عرضی داخل کی ہے۔ اپنی عرضی میں وسیم رضوی نے کہا ہے کہ قرآن کی ان آیتوں سے دہشت گردی کو فروغ ملتا ہے۔ وسیم رضوی کا کہنا ہے کہ مدرسوں میں بچوں کو قرآن کی ان آیتوں کو پڑھایا جا رہا ہے جس سے ان کا ذہن شورش پسندی کی طرف بڑھ رہا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔