این سی ای آر ٹی کی کتاب سے بابری مسجد کا ذکر نکال دیا گیا، ایودھیا کے موضوع پر کی گئیں اہم تبدیلیاں

این سی ای آر ٹی کی کتاب میں تبدیلی کی اطلاع اپریل میں ہی آگئی تھی۔ ایک ہفتہ قبل نئی تبدیلیوں کے ساتھ کتاب بازار میں آگئی ہے جس میں بابری مسجد کا ذکر تین گنبدوں والے ڈھانچے کے طور پر کیا گیا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>بابری مسجد کی فائل فوٹو / تصویر: آئی اے این ایس</p></div>

بابری مسجد کی فائل فوٹو / تصویر: آئی اے این ایس

user

قومی آوازبیورو

این سی ای آر ٹی کی 12ویں جماعت کی پولیٹیکل سائنس کی نئی کتاب منظرِعام پر آئی ہے، جس میں بہت سی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ سب سے بڑی تبدیلی ایودھیا تنازعہ کے موضوع پر ہوئی ہے اور کتاب میں بابری مسجد کا ذکر تک نہیں کیا گیا ہے۔ مسجد کا نام لکھنے کے بجائے اسے ’تین گنبدوں والا ڈھانچہ‘ بتایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ موضوع کو چار کے بجائے دو صفحات میں سمیٹا گیا ہے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق ایودھیا تنازعہ کی معلومات دینے والے پرانے ورژن کو بھی ہٹا دیا گیا ہے۔ اس میں گجرات کے سومناتھ سے ایودھیا تک بی جے پی کی رتھ یاترا، کارسیوکوں کا کردار، 6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد کی شہادت کے بعد فرقہ وارانہ تشدد، بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں صدر راج اور ایودھیا میں ہونے والے واقعات پر بی جے پی کا اظہار افسوس شامل ہے۔

بارہویں جماعت کی پولیٹیکل سائنس کی پرانی کتاب میں بابری مسجد کو 16ویں صدی کی مسجد کے طور پر متعارف کرایا گیا تھا جسے مغل بادشاہ بابر کے جنرل میر باقی نے تعمیر کیا تھا۔ اب نئی کتاب میں اس کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے، ’تین گنبدوں والا ڈھانچہ 1528 میں شری رام کی جائے پیدائش پر بنایا گیا تھا لیکن اس ڈھانچے کے اندرونی اور بیرونی حصوں پر ہندو علامات و باقیات کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا تھا۔


ایودھیا تنازعہ کا ذکر کرنے والی پرانی کتاب میں فیض آباد (اب ایودھیا) ضلع عدالت کے حکم پر فروری 1986 میں مسجد کے تالے کھولے جانے کے بعد ’دونوں طرف سے‘ محاذ آرائی کی بات کی گئی تھی۔ اس میں فرقہ وارانہ تناؤ، سومناتھ سے ایودھیا تک رتھ یاترا، دسمبر 1992 میں رام مندر کی تعمیر کے لیے سویم سیوکوں کے ذریعے کی کار سیوا، مسجد کی شہادت اور اس کے بعد جنوری 1993 میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات کا ذکر کیا گیا تھا۔ پرانی کتاب میں بتایا گیا تھا کہ کیسے بی جے پی نے ایودھیا میں ہوئے واقعات پر افسوس کا اظہار کیا اور سیکولرازم پر سنجیدہ بحث کا ذکر کیا۔

مذکورہ بالا باتوں کو نئی کتاب میں ایک نئے پیراگراف سے تبدیل کر دیا گیا ہے۔ نئی کتاب میں لکھا ہے کہ 1986 میں تین گنبدوں والے ڈھانچے کے حوالے سے ایک اہم موڑ آیا، جب فیض آباد (اب ایودھیا) کی ضلعی عدالت نے ڈھانچے کے تالے کھولنے کا حکم دیا، جس سے لوگوں کو وہاں عبادت کرنے کی اجازت دی گئی۔ یہ تنازعہ کئی دہائیوں سے چل رہا تھا کیونکہ ایسا مانا جاتا ہے کہ تین گنبدوں والا ڈھانچہ ایک مندر کو منہدم کرنے کے بعد شری رام کی جائے پیدائش پر تعمیر کیا گیا تھا۔

نئی کتاب میں مزید لکھا گیا ہے کہ اگرچہ مندر کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھا لیکن مزید تعمیر پر پابندی برقرار رہی۔ ہندو برادری نے محسوس کیا کہ شری رام کی جائے پیدائش کے حوالے سے ان کے تحفظات کو نظر انداز کر دیا گیا ہے، جبکہ مسلم برادری نے ڈھانچے پر اپنے قبضے کے لیے ضمانت طلب کی۔ اس کے بعد دونوں برادریوں کے درمیان اس کے مالکانہ حقوق کو لے کر تناؤ بڑھ گیا جس کی وجہ سے تنازعہ اور قانونی جدوجہد دیکھنے کو ملی۔ دونوں برادریوں کے لوگ طویل عرصے سے چلے آ رہے اس تنازعے کا منصفانہ حل چاہتے تھے۔ 1992 میں ڈھانچے کے انہدام (شہادت) کے بعد کچھ ناقدین نے یہ بات کہی کہ اس نے ہندوستانی جمہوریت کے اصولوں کے لیے بڑا چیلنج کھڑا کر دیا ہے۔

پولیٹیکل سائنس کی کتاب کے اس نئے ورژن میں ایودھیا تنازعہ پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر ایک ذیلی حصہ شامل کیا گیا ہے۔ اس کا عنوان ’قانونی کارروائی سے خوش اسلوبی سے قبولیت تک‘ ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی سماج میں تنازعات فطری ہیں لیکن ایک کثیر المذہبی اور کثیر الثقافتی جمہوری سماج میں یہ تنازعات عام طور پر قانون کی پیروی سے حل کیے جاتے ہیں۔ کتاب میں ایودھیا تنازعہ پر 9 نومبر 2019 کو سپریم کورٹ کی آئینی بنچ کے فیصلے کا ذکر ہے۔ اس فیصلے نے مندر کی تعمیر کا راستہ تیار کیا۔


کتاب میں لکھا گیا ہے کہ فیصلے میں رام مندر کی تعمیر کے لیے متنازعہ جگہ شری رام جنم بھومی تیرتھ چھیتر ٹرسٹ کو الاٹ کی گئی اور متعلقہ حکومت کو ہدایت دی گئی کہ وہ سنی سنٹرل وقف بورڈ کو مسجد کی تعمیر کے لیے مناسب جگہ الاٹ کرے۔ اس طرح (یہ فیصلہ) جمہوریت آئین کی جامع روح کو برقرار رکھتے ہوئے ہمارے جیسے تکثیری معاشرے میں تنازعات کے حل کے لیے جگہ فراہم کرتا ہے۔ یہ مسئلہ آثار قدیمہ کی کھدائی اور تاریخی ریکارڈ جیسے شواہد کی بنیاد پر قانون کے مناسب عمل کے بعد حل کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کو سماج میں بڑے پیمانے پر قبول کیا گیا تھا۔ یہ ایک حساس مسئلے پر عام اتفاق رائے بنانے کی ایک بہترین مثال ہے، جو ہندوستان کے لوگوں کے درمیان جمہوریت کی پختگی کو ظاہر کرتی ہے۔

پرانی کتاب میں انہدام (مسجد کی شہادت) کے وقت اخبارات میں لکھے گئے مضامین اور اس وقت کی خبروں کی تصویریں شامل تھیں، جن میں 7 دسمبر 1992 کی ایک خبر کا عنوان ’بابری مسجد منہدم، مرکز نے کلیان حکومت کو برخاست کیا‘ تھا۔ 13 دسمبر 1992 کو شائع ہونے والے ایک اخباری مضمون کی سرخی میں سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کا حوالہ دیا گیا تھا کہ ’ایودھیا بی جے پی کی سب سے خراب غلط فہمی ہے‘۔ اب نئی کتاب میں سے ان تمام اخباری تراشوں کو ہٹا دیا گیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔