دارالعلوم دیوبند کی انتظامیہ کا اہم فیصلہ، ادارہ میں خواتین کے داخلہ پر پابندی

دارالعلوم دیوبند کے اس فیصلے پر اعتراض کرنے والوں کو کہنا ہے کہ انتظامیہ کو خواتین کے داخلے پر پابندی لگانے کے بجائے کچھ سخت قوانین بنانے چاہئیں۔

<div class="paragraphs"><p>دارالعلوم دیوبند / سوشل میڈیا</p></div>

دارالعلوم دیوبند / سوشل میڈیا

user

عارف عثمانی

دارالعلوم دیوبند نے ایک اہم فیصلہ لیتے ہوئے ادارہ میں خواتین کے داخلہ پر پابندی لگادی ہے۔ یہ فیصلہ دارالعلوم میں خواتین کے ذریعے ریل (ویڈیو) بنانے کے واقعات کے اور اس پر اعتراضات کے بعد لیا گیا ہے۔ دارالعلوم کی انتظامیہ کے اس فیصلے کے بعد اب دارالعلوم دیوبند دیکھنے آنے والی خواتین کا ادارہ میں داخلہ ممنوع ہوگیا ہے۔

اس سلسلہ میں ادارہ کی جانب سے باضابطہ طورپر کوئی اعلامیہ جاری تو نہیں کیاگیا ہے لیکن ادارہ کے مہتمم و شیخ الحدیث مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی نے اس کی تصدیق کی ہے اور کہا ہےکہ دارالعلوم دیوبند میں روزانہ بڑی تعداد میں خواتین آکر ریل( ویڈیو) بناکر سوشل میڈیا پر وائرل کررہی تھیں جس کے سبب ادارہ کی شبیہ متاثر ہورہی تھی اور ملک بھر سے اس پر اعتراضات کیے جا رہے تھے۔ جس کے بعد انتظامیہ نے یہ فیصلہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ ان واقعات سے طلبہ کی تعلیم بھی متاثر ہورہی تھی اور طلبہ کی جانب سے بھی اس سلسلے میں شکایات موصول ہوئی ہیں۔


دارالعلوم دیوبند کی انتظامیہ کے اس فیصلے پر اعتراضات بھی کیے جانے لگے ہیں۔  کچھ لوگوں نے اسے غیر مناسب قرار دیا ہے جبکہ سوشل میڈیا پر ایک حلقے نے انتظامیہ کے اس فیصلے کی تعریف کی ہے۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہاں خواتین اور لڑکیاں آکر ویڈیو بناتی تھیں جس کی وجہ سے ادارہ کی شبیہ اور طلبہ کی پڑھائی متاثر ہورہی تھی۔سوشل میڈیا پر ویڈیو دیکھنے کے بعد ملک بھر سے شکایات آرہی تھیںجس کے بعد یہ فیصلہ لیا گیا۔

انتظامیہ کے اس فیصلے کے بعد اب خواتین ادارے کے اندر جدید تعمیر لائبریری اور مسجد رشیدوغیرہ میں بھی داخل نہیں ہوسکیں گی۔ حالانکہ قلمکار کار سید وجاہت شاہ اور نظر فاؤنڈیشن کے چیئرمین نجم عثمانی وغیرہ نے اس فیصلہ پر اعتراض کرتے ہوئے اسے غیر مناسب بتایا اور کہاکہ دارالعلوم دیوبند سے ہر مسلمان بشمول مردو خواتین بے پناہ محبت و عقیدت رکھتے ہیں اور ادارہ کی زیارت کی خواہش لے کر یہاں آتے ہیں۔ اس لئے ذمہ داران کو خواتین کے داخلہ پر مکمل پابندی کے بجائے کچھ سخت قوانین بنانے چاہئیں تاکہ ادارہ کا وقار بھی برقرار رہے اور دور دراز سے آنے والی خواتین کو بھی مایوسی نہ ہو۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔